مزاحمتی ادب کا تصور ہمارے یہاں زیادہ کثرت سے نہیں لایا گیا شاید اس لئے بھی کہ ہمارے ملک کی تاریخ جن غلط اطراف میں رواں دواں رہی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے بعد ان اطراف کی نشان دہی ہمارے مجموعی ادب کا ایک نمایاں پہلو چلی آ رہی ہے۔ اور اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے۔ تو قومی زندگی کی صحیح سمت متعین نہ ہونے کی صورت میں ذہنوں کو جلا بخشنے والا جو ادب بھی وجود پذیر ہوتا رہا ہے۔ وسیع تر معنوں میں آپ اسے مزاحمتی ادب سے ہٹ کر کوئی دوسرا نام نہیں دے سکتے۔ مگر مخصوص تر معنوں میں مزاحمتی ادب کا تعین جبر و استبداد کے کسی ایک عہد کے حوالے سے زیادہ نمایاں حیثیت احتیار کر لیتا ہے۔ پاکستان میں پہلے بڑے مارشل لاء کے نفاذ کا دورانیہ بھی 1958ء سے 1962ء تک اور پھر مرضی کی جمہوریت کا دور 1962ء سے 1972ء تک برقرار رہا۔ اس طویل اور شخصی حکومت کے دور میں مزاحمتی ادب کے بہت سارے یادگار نقوش اجاگر ہوئے۔ مگر اس دور میں بھی زیادہ متانت تو اس عہد کے مجموعی ادب میں پڑھنے کو ملتی ہے۔ البتہ حبیب جالب کے یہاں جذباتی شاعری کے بہت سارے نمونے معرضِ تخلیق میں بھی آئے۔ اور زبان زد خاص و عام بھی ہوئے۔ اس میدان میں بھی حبیب جالب اکیلے نہیں تھے۔ بہت سارے اور لوگوں نے بھی قومی اور علاقائی زبانوں میں تند و تیز مزاج رکھنے والے ادب کی تخلیق میں نمایاں حصہ لیا۔ حبیب جالب کا کمال یہ ہے۔ کہ وہ اس قافلے میں ایک سرخیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ جنرل یحیٰ کا دور حکومت ہنگامی مزاج کا حامل تھا۔ شاید اس لئے کہ پچھلے ڈیڑھ دو عشروں میں ادبی سطح پر جو کچھ لکھا جا چکا تھا۔ اسے عملی صورت دینے لئے ایک طوفانی سیاسی محاذ دور ایوبی ہی میں انتہائی فعالانہ پس منظر کے ساتھ سامنے آ چکا تھا۔ بہر حال 1969ء سے دسمبر 1970ء تک کے عرصے میں بھی مزاحمتی ادب کی انڈر کرنٹس ہمارے ملکی ادب میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر رہیں۔
1971ء کا سال انتہائی ذہنی خلفشار کا سال تھا۔ جس کے اختتام پر ہمارا ملک دولخت ہوا۔ اور مزاحمتی ادب نے فریادی ادب کی شکل و صورت احتیار کر لی۔ 1971ء سے 1977ء تک کا عرصہ جمہوریت کی بحالی کا عرصہ قرار دیا جاتا ہے مگر ایسا نہیں کہ اس دور میں اہلِ قلم حضرات حاموش رہے ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس دور میں تخلیق ہونے والا ادب اس مفہوم میں مزاحمتی ادب نہیں تھا۔ کہ یہ ادب کسی جابر حکمران کے جبر و استبداد کے خلاف لکھا جاتا۔ بلکہ اس دور میں حکومتی سطح پر جو گمراہ کن سازشیں عمل میں آئیں اہل قلم حضرات نے ان سازشوں کے حلاف شکائتی انداز میں اپنے اپنے مقامات پر یقیناً قلم کو جنبش دی۔ شاید اس لئے کہ جن طاقتوں کے خلاف مزاحمتی ادب تخلیق ہوتا رہا تھا۔ وہی طاقتیں دوبارہ جمہوری عمل کے درپے تھیں۔
تاریخی اعتبار سے مزاحمتی ادب کا مطالعہ اپنے اندر بہت سارے تقاضے رکھتا ہے۔ مگر زیادہ توجہ ہمیشہ اس مزاحمتی ادب پر مرکوز رہتی ہے۔ جو قریب ترین عہدِ ظلم و ستم میں ظہور پذیر ہوا ہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 1977ء سے 1988ء تک کے طویل دو رانئے میں جتنا ادب تخلیق ہوا اس میں دو طرح کے عوامل بڑی واضح صورت میں موجود ہیں جن میں سے پہلا تو یہ ہے کہ ابتدائی سالوں میں بہت سارے لوگوں نے ملک میں تیسرے بڑے مارشل لاء کے خلاف آواز اٹھائی مگر جوں جوں مارشل لاء کی گرفت مضبوط ہوتی گئی مزاحمتی ادب کی تخلیق بھی ماند پڑتی گئی شاید اس لئے کہ اس طرح کا ادب تخلیق کرنے والوں پر ملک کی چاندنی تک حرام قرار دے دی گئی مؤقف یہ تھا کہ حب وطن کے نام پر اہلِ قلم حضرات مارشل لائی قوتوں کا ساتھ دیں۔ بصورتِ دیگر انہیں غدار قرار دیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اکاومی ادیبات پاکستان کے اجتماعی جشنوں اور میلوں کے باوجود مزاحمتی ادب نے انڈرکرنٹس کا رُوپ دھار لیاا جس کی بے شمار مثالیں ہمارے ادب میں شبِ تاریک میں ستاروں کی طرح جگمگاتی دکھائی دیتی ہے۔
ماجد صدیقی کا نیا مجموعہ غزل ’’آنگن آنگن رات‘‘ اس دورِ سیاہ کے آخری ایام میں مرتب اور اشاعت پذیر ہوا۔ جو دور قومی زندگی کے ساڑھے گیارہ سالوں پر چھایا ہوا تھا۔ اس کتاب میں مزاحمتی ادب کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ بلکہ کتاب کے مطالعے کے بعد یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے۔ کہ ’’آنگن آنگن رات‘‘ کا اسی (80)فیصد حصہ انتہائی سنجیدہ اور معیاری مزاحمتی ادب کا ایک وقیع نمونہ ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے۔ کہ اس کے کسی ایک شعر پر بھی کھوکھلے پراپیگنڈے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ ’’آنگن آنگن رات‘‘ کے تفصیلی مطالعے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کہ ماجد صدیقی کے نظم کے مجموعوں کے علاوہ غزل کے مجموعوں میں سے وہ نقوش ضرور تلاش کئے جائیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ان کے کچھ نمونے یقینا پیش کئے جا سکتے ہیں۔
ماجد صدیقی کے تیسرے مجموعہ غزل ’’ہوا کا تخت‘‘ میں سنجیدہ مزاحمتی ادب کی چند بہترین مثالیں ملاحظہ ہوں۔
ہیں لبوں پر خامشی کی کائیاں
زنگ آلودہ زباں ہے اور ہم
اے پیڑ تیری خیر کہ ہیں بادِ زرد کی
پیوست انگلیاں تری شاخوں کے بور میں
ہوا کی کاٹ بھی دیکھ اور اپنی جان بھی دیکھ
جنوں کے مرغ نہ تو بال و پر نکال اپنے
اُکتا کے زوالِ گلستاں سے
کر لی ہے مفاہمت حزاں سے
دیوار اک اور سامنے ہے
لے چاٹ اسے بھی اب زباں سے
کچھ ایسا رُک سا گیا عہد بے بسی جیسے
جمی ہے لمحوں کے چہروں پہ گرد صدیوں کی
کون سا سرچشمۂ آلام ہے اس قوم کا
دم بخود سارے ہیں لیکن سوچتا کوئی نہیں
مان لیتے ہیں کہ دیوار قفس سخت سہی
سر تو تھا پھوڑنے کو مُرغ گرفتار کے پاس
تنے بھی خیر سے زد میں اسی ہوا کی ہیں
شکست شاخ سے اندازۂ عتاب کریں
زباں کے زخم پرانے یہی سجھاتے ہیں
کہ اب کسی سے بھی دل کا نہ مدعا کہئے
کٹی جو ڈور تو پھر حرص اوج کیا معنی
کہاں سے ڈھونڈتے پہلو کوئی سنبھلنے کا
یہ اور اس طرح کی بیسیوں اور مثالیں ماجد صدیقی کے مجموعہ غزل ’’ہوا کا تخت‘‘ میں بڑی آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اسی دور میں ماجد صدیقی کے ’’انگن آنگن رات‘‘ سے پہلے دوا اور مجموعہ ہائے غزل بھی منظر عام پر آئے جو ’’سخناب‘‘ اور غزل سرا کے ناموں سے اشاعت پذیر ہوئے۔
سخناب کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
مجرم نے پہلی پیشی پر
جو بھی کہا اس سے مکرا ہے
لوٹایا اک ڈنک میں سارا
سانپ نے جیتا دودھ پیا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
بھٹکنے والا اڑا کے پیروں میں باگ اپنی
نجانے گھوڑا یہ کس لئے شہسوار کا ہے
ہوا بھی آئے تو کانٹے سی لگے بدن کو
وہ خوف زنداں میں تیغِ قاتل کی دھار کا ہے
چرخ سے وہ حدتیں برسیں کہ اب ایسا لگے
چاندنی سے بھی بدن جیسے ہو جل جانے لگا
کمالِ فن ہے یہی عہد نو کے منصف کا
کہ جو پکار بھی اٹھی کہیں دبا دی ہے
کوئی تو معجزہ دکھلائے گا فراق اس کا
ہر ایک رگ میں لہو جس سے اضطراب میں ہے
معاملہ ہی رہائی کا اس بیاں پر تھا
مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا
حق بجانب بھی ٹھہرتا ہے وہی بعد ستم
وصف طرفہ یہ مرے عہد کے سفاک میں ہے
کم نہ تھا وہ بھی جو ارضِ جاں کے ہتھانے میں تھا
پر کرشمہ اور ہی اس کے مکر جانے میں تھا
جاں نہ تھی صیاد کو مطلوب اتنی جس قدر
اشتیاق اس کا ہمارے پر کتروانے میں تھا
پھر تو ماجد کھو گئے ہم بھی فنا کے رقص میں
خوف سب گرداب کے ہم تک چلے آنے میں تھا
تمہاری ہاں میں ملائیں گے ہاں نہ کب تک ہم
کچھ اور کوٹئے لوہا ابھی تو سان پہ ہے
بس اتنا یاد ہے قصہ گرانی شب کا
کوئی گلاب نہ کھلتا دم سحر دیکھا
پنجرے میں صبا لا کر خوشبو یہی کہتی ہے
مشکل ہے گلستاں سے کچھ اور خبر لانا
شدتِ اشتہا سے جسم اپنا
کب سزاوار سنگ سار نہ تھا
وقت فرعون بنانے کسی کو کتنا ہی
ایک نہ اک دن وہ بھی ٹھکانے لگتا ہے
وہ بھی کیا شب تھی کہ جس کے حشر زا انجام پر
کانپتے ہاتھوں میں میرے صبح کا احبار تھا
ادھر فساد سبک اور گھنے اندھیروں میں
ادھر گماں کہ سیاہی فلک سے چھٹنے لگی
شباب پر ہے سفر واپسی کا ہر جانب
مہک بھی باغ میں اب سوئے گل پلٹنے لگی
یہ سورج کون سے سفاک دن کا
مرے صحنِ نظر میں آ ڈھلا ہے
اس کے ستم کا خوف ہی اس کا ہے احترام
چرچا جبھی تو اس کا سبھی چار سُو کریں
جب سے دیوانہ مرا ہے شہر میں
پاس بچوں کے کوئی پتھر نہیں
کم نہیں کچھ اس کی خو کا دبدبہ
ہاتھ میں قاتل کے گو خنجر نہیں
ایسا بگڑا نظام اعضاء کا
نت کمک کو ہمیں بخار آئے
انہیں کے سامنے جھکتے تھے عدل والے بھی
سلوک جن کا سرِ ارض غاصبانہ تھا
عدل ہاتھوں میں ایا تو اپنے لئے
جو بھی شے ناروا تھی روا ہو گئی
یہ لفظ تھے کل ایک جنونی کی زباں پر
بسنے سے ہے اس شہر کا ہونا بھسم اچھا
پہنچ گئے ہیں یہ کس مہرباں کی سازش سے
سکوں کی آس لئے جبر کی پناہوں میں
سر ہوئے تھے کبھی اتنے تو نہ عریاں پہلے
آندھیاں لے کے اڑیں اب کے ردائیں جتنی
آسماں ٹوٹا نہ گر پھٹ جائے گی خود ہی زمیں
آنگنوں کے حبس نے یہ راز ہے افشا کیا
ابھی مشکل ہے صحرا سے نکلنا
کہ چھاؤں میں ابھی پانی بہت ہے
چھین لی تھی کمان تک جس سے
آ گئے پھر اسی کے داؤ میں
کیا یہ شب ہے کہ جس میں جگنو بھی
دور تک راستہ سجھاتا ہے
سامنا ہے ہمیں اس عادل کا
دے نہ مہلت بھی جو صفائی کی
دھار تلوار کی نگاہ میں ہے
شوسر پر ہے تازیانے کا
ہاتھ لتھڑے تھے لہو سے جن کے
مرنے والوں کے عزادار بنے
دھجیاں اس کی بکھر کر رہ گئیں
جس ورق پر عکس تھا اقرار کا
ماجد صدیقی کے مجموعے ’’غزل سرا‘‘ کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ بجائے خود ایک مجموعہ غزل ہے اور دوسری یہ کہ ماجد صدیقی نے اس عنوان کے تحت اپنے پانچ مجموعہ ہائے غزل کو یک جا کر دیا ہے اور اب اس کا 1987ء تک کا کُلیاتِ غزل اس عنوان سے مطبوعہ صورت میں موجود ہے کلیات غزل میں شامل مجموعوں کے نام ہیں۔ -1آغاز، -2تمازتیں، -3ہوا کا تخت، -4سخناب، -5غزل سرا۔
مجموعہ ’’غزل سرا‘‘ میں ماجد صدیقی نے مزاحمتی ادب کی شاید اس لئے بھی زیادہ منور مثالیں قائم کی ہیں کیونکہ ملکِ عزیز میں حبس دوام کی صورتحال کافی حد تک حوصلہ شکن اور ناگوار ہو چکی تھی مزاحمتی ادب پر مشتمل غزل سرا کے بہت کم منتخبہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
وہ دیکھو جبر کی شدت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
ہوئی ہے دم بخود یوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پہ سو گیا ہے
عدالت کو وہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دھلا ہے
جو خود لہج رو ہے کب یہ فرق رکھے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
عصمتوں کی دھجیاں کیا کیا اڑیں اس شہر میں
دیکھنے سے جن کے مائیں مرگئیں اس شہر میں
دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھائے گا
جو بھی قیمت ہے کسی کی وہ جبیں پر لکھ لے
یہ منادی بھی سر شہر کرائی جائے
وسعتِ شب کو بڑھتا دیکھ کے ہے ہم نے بھی
اپنا اک اک حرف سحر آثار کیا
مرضی کا برتاؤ اندر والوں سے
باہر والوں سے ہے جنگ اصولوں کی
دن کو بھی اب یوں ہے جیسے آنکھوں میں
سرمے جیسی رات سجی دکھلائی دے
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
جو خبر بھی آتی ہے ساتھ اپنے لاتی ہے بات اس قدر یعنی
قافلہ اُمیدوں اب تلک یونہی لپٹا گردِ رہ گزر میں ہے
ہونٹوں نے بھی لو زہرِ خموشی سے چٹخ کر
سیکھا وہی انداز جو مرغوب شہاں ہے
کرو نہ شاخِ بدن سے سروں کے پھول جدا
سدا بہار تمہارے ہی سر کا تاج سہی
کیا خبر ذلتِ پیہم ہی جگا دے ان کو
شہر کے لوگ نہ کیوں اور ستائے جائیں
خلقت شہر سے کیوں ایسی بری بات کہے
اس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے
اوروں کو بھی مجھ سی ہی شاید دکھلائی دیتی ہو
فصل کٹے کھیتوں جیسی ہر صورت خالی خالی سی
یہ بھید وسعت صحرا میں ہم پہ جا کے کھلا
کہ شہرِ درد میں ہم بے زبان کیا کیا تھے
شب المکے تصور سے یوں لگے جیسے اسی حیات میں اک اور ہو جنم دیکھا جانے کس کا خوف ہے جو کر دیتا ہے محتاط ہمیں
ہونٹوں پر اٹکی اٹکی ہر بات دکھائی دیتی ہے
اثر جس کا مرض کی ابتداء تک ہی مسلم تھا
ملے بھی گر تو وہ نسخہ بھلا اب کارگر کب ہے
وہ مرے ٹوٹے ہوئے پر دیکھ کر
کھل اٹھا ہے حاصل شر دیکھ کر
خدشوں نے جہاں دی نہ مری آنکھ بھی لگنے
اس شہر کا اک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
یہی دعا ہے کہ بے آب ہوں نہ حرف مرے
سزا کوئی بھی وہ دے عجزِ بے نوائی نہ دے
جھول رہے ہیں جس کے تُند بہاؤ پر
دیکھیں لے کر جاتی ہے یہ رات کہاں
کشتی کے پتوار نہ ل ہی سے جل جائیں
ہر راہ رو کے ذہن میں ایک یہی چنتا ہے
مبتلا عدل بھی اب جبر کے آزار میں ہے
دیکھ اعلان یہی آج کے اخبار میں ہے
کرنی کر کے ہے یوں آمر بھول گیا
ڈنک چھبو کر جیسے اژدر بھول گیا
ایک سی چپ ہر سمت ہے چاہے سانپ نگل لے چڑیا کو
کچھ ہو نہ جائے ہونے کو برپا ہی کہیں کہرام نہیں
نظر کا آشوب جب تلک ہے نہ جا سکے گا
ہمیں لگا ہے جو روگ ماجد سخنوری کا
ماجد صدیقی کا تازہ مجموعہ غزل غزل سرا کی اشاعت کے بعد کا سرمایۂ فکر ہے جو 1988ء کے دوران منظرِ عام پر آیا ہے ملک عزیز میں یہ سال انتہائی حبس کا سال تھا اس لئے کہ تمناؤں کا سبزہ ہر کہیں سنگِ گراں کے تلے ہمیںہ ہمیشہ کے لئے دبتاکھائی دے رہا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے حبس کی جڑیں شریانوں تک میں اُتر چکی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ 1958ء کے مارشل لاء کے جبر و استبداد کے خلاف آواز اٹھانے والا ماجد صدیقی اگست 1987ء اور اگست 1988ء کی مدت کے دوران آنگن آنگن رات کے عنوان سے ایک اور مجموعۂ غزل ہمارے سامنے لایا یہ بات طے ہے کہ ماجد صدیقی واویلا بھی کرتا ہے تو اتنی فنی مہارت کے ساتھ کہ:
جو غم ہوا اسے غمِ جاناں بنا دیا
کی تصویر صاف صاف آنکھوں میں لہرانے لگتی ہے اور یہ فیضان انتہائے کرب کا ہے یا ماجد صدیقی کی دردمندانہ مشاقی کا کہ اس کا یہ مجموعہ اوّل سے آخر تک سرتاپا انہی دو خوبیوں سے لیس ہے اور یہ بات بڑے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آنگن آنگن رات کا کوئی بھی دیانت دار نقاد اس کتاب کی خوبیوں کا احاطہ کسی ایک مقالے کی صورت میں نہیں کر سکتا ہمارے اس دعوے کا یقین نہ آئے تو آنگن آنگن رات کا انتہائی محدود انتخاب دیکھ لیجئے جو آئندہ سطور میں دیا جا رہا ہے ماجد صدیقی کا فن بذاتہ آپ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے گا انتخاب ملاحظہ ہو۔
وہ فرطِ قحط نم ہے کہ ہر شاخ ہے سلاخ
پنجرے کو مات کرنے لگا ہے چمن تمام
ناتوانوں کے کوائف جام میں کر لے کشید
ہم ہوئے جس عہد میں اس عہد کا جم اور ہے
مجھ پہ کھل پائی نہ جوہڑ کی سیاست ماجد
گرچہ تھا رفعت ہر کوہ کا ادراک مجھے
آئے نہیں ہیں بس میں ابھی ضابطے تمام
سانچے میں اپنے ڈھال عدالت کچھ اور بھی
ناخلف لوگوں پہ جب سے پھول برسائے گئے
شاخچوں پر انتقاماً تتلیاں اگنے لگیں
کب کوئی سانپ دبا لے کوئیں شاہیں آلے
چونچ پر پڑنے لگے خوف کے چھالے کیا کیا
وہ دیکھ فکر کو ماجد نئی جِلا دینے
فضا سے اور بگولے نظر پہ اُترے ہیں
صیدِ تخریب ہوا میں تو ہوا عدل یہی
پرسش شاہ کا اعزاز مرے نام لگا
وہ بھگدڑ کارواں میں ہے کہ جیسے
لُٹیرا پاسباں ہونے لگا ہے
راندۂ خلق ہے جو پاس تمہارا نہ کرے
درس اب یہ بھی کسی اور بہانے دینا
اے کاش وہ نوعیتِ بخشش بھی سمجھ لے
ہم پر جو سخی لطف و کرم کنرے لگا ہے
ہوئے تھے حرص سے پاگل سبھی کیا دوڑتا کوئی
لگی تھی شہر بھر میں آگ جو، اس کے بجھانے کو
نوالے کیا یہاں خالص نہیں حرفِ تسلی تک
سبھی میں ایک سی افیون ملتی ہے سُلانے کو
کام میں لا کر عمریں بھی اب کون سمیٹے گا اس کو
پھیل چکی ہے جو بے سمتی نصف صدی کے سالوں پر
گھر گھر فریادی بانہوں کی فصل اُگی تھی
شہر کا موسم کیوں ایسا تھا یاد نہیں ہے
جُگنو جُگنو روشنیوں پر لوٹ مچاتے
اس کا ماتھا کب چمکا تھا یاد نہیں ہے
وہ جس کے ہاتھ میں کرتب ہیں اس کی چالوں سے
لُٹیں گے اور بھی ہم ایسے خوش گماں کیا کیا
کون کہے بیوپاری سودا اغواء ہونے والی کا
کن کن سنگ دلوں کے آگے کس کس طور چکائے گا
شور زمینِ فکر ہے جس کی اور سینے میں زور بہت
کرنے کو اچھا بھی کرے تو کیا اچھا کر پائے گا
آنکھ تلک جھپکانے سے معذور ہوئے ہم آپ
کس مغوی طیارے میں محصور ہوئے ہم آپ
کیا یہ میرا ہی نگر ہے اسے ہوا کچھ تو بتا
ساری دیواریں سلامت ہیں چھتیں اتری ہوئی
اک جانب پچکار لبوں پر ہاتھ میں دُرہّ اس جانب
تانگے والا جان چکا گر گھوڑا تیز چلانے کا
وہی جو سانپ کی یورش سے اٹھے آشیانوں میں
سماعت درسماعت بس وہی چہکار غالب ہے
مجھے اک عمر جس شاطر نے پابند قفس رکھا
وہی اب منتظم بھی ہے مرے جشنِ رہائی کا
پتھر کے تلے اُگتے اور زیر عتاب آئے
جُگ بیت گئے ماجد اس جاں پہ عذاب آئے
حرص کی بین پہ کھنچ کر نکلے تو یہ کُھلا
دیش پٹاری میں بھی اژدر کیا کیا تھا
خدشہ ہے نہ کٹ جائے شعلے کی زباں تک بھی
ہر رنج پہ رسی سا چپ چاپ جلا جائے
جوابر بانجھ ہے اس سے کہو کہ ٹل جائے
تمام خلق اسی بات کی سوالی تھی
دستک سے، سرِ شہر پڑاؤ کو جو دی تھی
ایسے بھی ہیں کچھ جن کو یہاں راج ملا ہے
شر سلیقے سے سجا ایسا نہ رحل خیر پر
جیسی اب ہیں ظلم کی دلداریاں ایسی نہ تھیں
جھوٹ کا عفریت یوں سچ پر کبھی غالب نہ تھا
جابجا خلقت کی دل آزاریاں ایسی نہ تھیں
چاہے وہ جائے دفن بھی سب سے الگ تھلگ
نخوت ہے اس طرح کی دل تاجدار میں
ریوڑوں نے کی نہ تھی یوں پاسبانی گرگ کی
ظلم کو ماجد تحفظ یوں بہم دیکھا نہ تھا
گل پریشاں ہیں تو جھونکے نارہیں اب کے برس
سارے ارکانِ سکوں نادار ہیں اب کے برس
لب و زبان پہ چھالوں جبیں پہ سجدوں کی
غلامیوں نے ہمیں دیں نشانیاں کیا کیا
غرض اس سے نہیں ہے سلطنت رہتی ہے یا جائے
یہاں جو مسئلہ ہے وہ بقائے تاجور کا ہے
تا حشر نفرتوں کا نشانہ رہے جہاں
ایسی جگہ مزار ستم گر بنا دیا