نازک حسیات کا شاعر ۔ احمد ظفر

بس اسی بنا پر میں آسماں سے روٹھا ہوں
چاند کیوں نہیں اُترا رات میرے آنگن میں

یہ شعر ہے جناب ماجد صدیقی کے نئے مجموعہ غزل آنگن آنگن رات کا۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے مجموعے کا نام آنگن آنگن رات کیوں رکھا ہے یہ تاثر ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنی نازک حسیات کے شاعر ہیں اور وہ روشنی سے کتنا پیار کرتے ہیں، یہ ان کے احساس کی ایک اور جہت ہے۔ یہ تینوں جہتیں جب آپس میں رچ بس جاتی ہیں، تو اچھی شاعری جنم لیتی ہے۔ تخلیق کا عمل ایک مشکل عمل ہے۔ برسوں کا ریاض، گہرا مشادہ، وسیع مطالعہ اور اظہار پر قدرت اس عمل کا پس منظر بنتی ہیں یہ تمام صفات ماجد صدیقی کی شاعری میں ملتی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماجد صدیقی پچھلے تیس بتیس سال سے اس عمل میں مبتلا ہیں۔ ان کے متعدد پنجابی اور اردو نظم و نثر کے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ماجد اپنی پنجابی شاعری میں جہاں اپنی مٹی، اس کی بُو باس، اس کے رہن سہن کی پہچان کو برقرار رکھتے ہیں وہاں اوہ اپنی اردو شاعری میں بھی اپنے کلاسیکی سرمائے میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے انداز کو قائم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ انہیں زبان پر عبور ہے۔ وہ ہر دو زبانوں کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور فکری رچاؤ کے عمل کو تیز رکھنے کے لئے تن من دھن سے کوشاں رہتے ہیںماجد صدیقی وقفوں کی شاعری کے قائل نہیں بلکہ ان کا کلام ایک مسلسل عمل ہے۔ ارتقاء اور نمو کی کیفیتوں کے آئنہ دار ماجد صدیقی، اس دور کے نہایت اہم شاعر بن کر ابھرے ہیں۔

’’آنگن آنگن رات‘‘ کی غزلوں میں فکری گہرائی ہے، انداز بیان سہل ہے، مضامین میں بلا کا ابلاغ ہے ایک اداسی ہے مگر اداسی کے ساتھ ساتھ شگفتگی بھی ہے ان کے فکر و فن کا سلسلہ ایک گنگناتے ہوئے چشمے کی طرح آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

بچھڑ کے موسم گل سے یہی ہوا ماجد
کھلا ہے غنچۂ دل ہر گئی بہار کے بعد
صحن میں تمنا کے ہے یہی قلم ماجد
جس کی تاب ناکی سے شب بہ شب چراغاں ہے
رُکا تھا لفظ جو ہونٹوں پہ آ کر
وہ اب زخم زباں ہونے لگا ہے

یہ محض شعر ہیں مثال کے لئے۔ ایسے بہت سے شعر ’’آنگن آنگن رات‘‘ میں مل جائیں گے۔ اور اس مجموعہ غزل کے مطالعہ سے آپ یہ محسوس کریں گے کہ ماجد فن کے ساتھ انتہائی مخلص ہیں وہ بات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر شعر کہتے ہیں۔ البتہ کہیں کہیں لفظ کے استعمال میں۔۔۔ وہ جو تجربہ کرتے ہیں اس میں اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ شاید اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہیں زبان کے ساتھ ساتھ بیان کے نئے نئے سانچوں کی تلاش بھی برابر رہتی ہے۔

ماجد صدیقی غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے حالات پر بھی نظر ڈالتے ہیں، کہیں ایک ناقد کی طرح اور کہیں، ایک مبصر کی طرح اور کہیں، ایک تماشائی کی طرح اور ہر صورت میں ان کے انداز میں جذبۂ تعمیر رواں دواں دکھائی ہے۔

مہکے ہمارا باغ بھی شاید بہار میں،
آنکھیں پگھل چلی ہیں اسی انتظار میں
تھے جس قدر شہاب گرائے نشیب میں
ذروں کو وقت نے مہ واختر بنا دیا
ہمیں ہی راس نہ ماجد تھی مصلحت ورنہ
یہی وہ چیز تھی جس کا نگر میں کال نہ تھا۔