تلاش
Maajed Siddiqui

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

چھوڑیں مواد پر جائیں
  • ماجد صدیقی ۔ شخصیت اور شاعری
  • تصاویر
  • شعری البم
  • کتابیں
    • اردو شاعری
      • آغاز
      • غزل سرا
      • سخناب
      • سُرخ لبوں کی آگ
      • ٹوٹتے خمار کے دِن
      • ہوا کا تخت
      • ماجِد نشان
      • شہر پناہ
      • اَکھیاں بیچ الاؤ
      • آنگن آنگن رات
      • تمازتیں
      • دِل دِل کرب کمان
    • پنجابی شاعری
      • میں کنّے پانی وچ آں
      • سُونہاں لیندی اکھ
      • وِتّھاں ناپدے ہتھ
      • ریتنجناں
      • گُنگے دیاں رَمزاں
  • دوسروں کی رائے
Open Search

ٹوٹتے خمار کے دِن

آنکھ بھر آسمان کے نام
میں اور میری شاعری
کیوں ہو تجدید ان کی بالتکرار
منعکس ذہن میں ہے ہائے یہ کس دَور کا خواب
بعد اُس کے کیا ہُوا؟ ہوتا ہے جو، ویسا ہُوا
پُھوٹ جب پڑنے لگے، تو آ پڑے یاروں کے بِیچ
فتنہ ہمسری و نا ہمسری کا او یار
مُکھ چندا تب جا کے نکھارا
بار بار جو تجھ پر ’’جِندڑی” وارے یارا
منظر منظر دیکھ کے کھولے، خون ہمارا
محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا
رُت میں اساڑھ کی درشن اُس کا جل ٹھہرا
مدّتِ قید میں چھوٹ کریں اور ناطقہ بند آزادوں کا
بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا
پیار کے سودے میں بھی نقصان ہونے لگ پڑا
یا ذی عقل ہی اپنالے خاصہ خر کا
جاگتے دم ہی سجنوا تیرا درشن ہو گیا
اشک اُس چنچل کی آنکھوں میں ہے کوکب ہو گیا
فاصلہ رکھیے تو بہتر، ورنہ پیار ہو جائے گا
میں آئنہ ہوں ٹھیک سے چہرہ بتاؤں گا
یاور کا لطفِ بے پایاں، حصہ اپنا
چَودھواں مُکھ مہتاب کا، جاناں! تیرا سامنا
یادآئے محکوم کا دیہہ بدر ہونا
جتنا ترا ہے؟ روشن کس کا نام ہُوا
سیاست میں بھی موٹروے بنا دیتے تو اچّھا تھا
دل نے پتّوں سی ہوا دی کیا کیا
شہر بھر کو خامشی کا پیرہن پہنا دیا
دل دہل کر ہے گلے میں آ گیا
جیسا جُوتا شاہ نے راج کے انت میں کھایا
وہ وفا کا عہد نبھا دیا
خود بھی رہ جنبش میں اور پیسہ بھی کچھ جنبش میں لا
یا ذی عقل بھی اپنالے خاصہ خر کا
سُست رَو تھا اور تھا جو مستقل رَو، چھا گیا
گناہگار ہیں ہم، ہم سے اجتناب، جناب
غرورِ فرقِ شجر کھا چکے ہیں مات بہت
نئے نئے صدمات
سچ ہے اپنے خداوندوں کا ہے یہ کاج
مکھ ہے ترا کہ یہ پُورا چاند
اور طبعاً ہے مرا اللہ والوں میں شمار
وہ بھی تو سر ہے ہمارے سحر و شام سوار
یا شاعری میں اُتری دعاؤں کے زور پر
رُخ بہ رُخ نیّتیں بھی لکھا کر
اے شہِ عاجز! وقارِ خلق ارزاں اور کر
ہاں وجود اپنا جتا اور رقص کر
پیٹتا رہ اپنا سینہ، سُرخ اپنی کھال کر
پروازِ فکر اِن سے الگ، بُودوباش اور
کرتا ہے کب وہ مہلتِ قربت بہم اک اور
کب سُلجھے گی ساس
اب تو ڈھنگ سے جینے کی کوئی طُرفہ راہ نکال
جلدی ملن کی راہ کوئی اے سجن نکال
خلق کو ہم نے یاد آنا ہے آج نہیں تو کل
خواب مرے اور خواب اور خواب، تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
چشمان و جسم میں لگے یکجا نشہ تمام
ہم غلام، ابنِ غلام، ابنِ غلام
شب زاد بے شمار ہیں، جگنو بہت ہی کم
ہزار نیک سہی کم ہیں پر جہان میں ہم
پی نہیں پھر بھی مے گسار ہیں ہم
حکمراں میرے وطن کے! احمدی نژاد بن
جو تیری قرابت میں ہے نشہ وہ اور کسی ساغر میں کہاں
اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں
اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ایسا کروں
شہرِ سخن میں لوگ ہمیں کم کم مانیں
خوف دراڑیں ہوں کیوں شہرپناہوں میں
ایواں بھی لرزا کر دیکھیں
یار بٹھایا آنگن میں
جھانکے ہے اِک خلق، ہماری آنکھوں میں
شہروں شہروں، گاؤں گاؤں کیا کیا منظر دیکھوں میں
اَوج سے جو گرے، درس دے اَوج کا خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں
لاحق ہیں ہر شخص کو قدم قدم بے زاریاں
یار ہمارے پاس ہمارے آ بیٹھیں
اپنے خداوندوں سے کیا کیا ڈھونگ رچائیں
پیر کبھی نہ اکھڑتا دیکھیں
بُوڑھے سے لڑکا بن جاؤں
قلعہ بند اَیوان ہیں، یارا دُہائی کا نہیں
اُس بُتِ طنّاز سے مدّت سے یکجائی نہیں
وہ پیڑ باغ میں کبھی پھولے پھلے نہیں
کیسی یہ تتلیاں ہیں، ہمارے نصیب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے، دل کی کتاب میں
سینت اِن میں آخر تک کے احوال میاں
تازہ جنم دہرائیں سیّاں
غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں
اُٹھا کے ہاتھ اُنہیں کاسۂ دُعا مانوں
میرے چَرکوں کا اندمال کہاں
چہرے کے پھول رکھ لیے دل کی کتاب میں
دلچسپی گر ہے تو خباثت میں ہے یہاں
پرندے گھونسلوں کو آ رہے ہیں
وہ بچّے پھر کھویا چین کہاں پاتے ہیں
لوگ ورنہ بہت غصیلے ہیں
منافع سارے اوروں کے خسارے سب ہمارے ہیں
چٹی چمڑی والے پھر کیوں ہمیں سدھانے آئے ہیں
ہم پرچم بن کر لہرانے والے ہیں
فطرت نے بھی کرشمے کیا ابدان میں ڈھالے ہیں
مجرم شاہ بھی بچ نکلے ہیں
’جیون رس، کم دیکھ رہے ہیں
زمیں پہ برق کے زورِ ہنر کو دیکھتے ہیں
جمہور ہی کی ترجماں، جمہور کے در پَے یہاں
میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں
بادل کم کم آئیں پہ جب آئیں تو دیکھو
داؤ پہ داؤ
جانِ جہاں ہو
بڑھنے لگے دھرتی کے گھاؤ
تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو
اپنا اِک بھی طَور نہ بدلیں اور سِدھائیں اوروں کو
تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو
یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ
عقداِک اور ہُوا ایک غلام اور بنی
کیا ہے ضرورت ڈرنے کی
گِھر کے آئے جو بادل ہوا لے گئی
جانیں خفیہ خفیہ اُجڑیں تیری، میری
جنت ہی کا نمونہ ٹھہرے اپنا گھر بھی
اور دہشت کا ہے نشاں جس کی
گئی کب ہے وہ بیماری ہماری
مرے مدّعا و بیان میں ، ہو ملائمت تری چال سی
طرّۂ امتیاز ہے، لاج ہے، وہ ہے پت مری
شکل ہے ان چنداؤں کی بھی گہنائی
کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی
جویا صحافتی ہیں زرِ بے شمار کے
حریصِ دہر تھے جو تاجدار کیا کرتے
کیا کچھ انس ہمیں تھا گاؤں کی راہوں سے
پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے
ساتھ بیگانگی کی خو جائے
تُند ہوا پتّوں کو یوں بہلانا جانے
عادلِ اعلیٰ بھی ہے تسبیح دکھلاتا ملے
باغِ حیات میں ہر سُو، پت جھڑ رقص کرے
اور ہے جو رہبروں کا غول ہے باہر کہے
ہونٹ ہلا اور پھول کھلا دے
آنکھ میں مچلی نظر کا لطف لے
ساعت ساعت جشن منا لے ہنس لے جی لے
کون سا لمحہ نجانے آخری لمحہ بنے
کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے
گلی گلی کے بدامنی کے نہ شرر ہوتے
کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے
ہو جو پیری میں دم تو کیا کہنے
ساتھ ہی جانے کونداسا کیوں آنکھوں میں لہرایا ہے
اصل میں بس میں ہمارے ہے تو آج کا دن ہے
شاید تختۂ عجزونیاز ٹھکانے لگا ہے
لب و زبان پہ نامِ خدا کا چرچا ہے
لگے ہے جیسے کسی شاہ پر کودیکھا ہے
ہمارے گرد وہ بَیری سپاہ اتری ہے
ہو کرم یا قہر ہر دو کے میاں جینا تو ہے
کبھی کبھی خوددار کو بھی ڈرنا پڑتا ہے
آنکھ میں آشتی تُجھی سے ہے
بندر جو میدان میں بھوکا پیٹ دکھانے نکلا ہے
کس نے کہاں پر کھو جانا ہے
دِن دِن گنجینہ، لطفِ پامال کا ہے
ہر شہری اس رنج پہ کھویا کھویا لگتا ہے
وہ راہوں پر پھول کھلانے نکلا ہے
کہ جیسے جھیل میں چندا اُتر کے ہنستا ہے
یہی موضوع نطق و لب کا ہے
جو بھی الجن ہیو اسے یار بنا رکھا ہے
سانس بھی دیس میں مشکل ہی سے در آتا ہے
فائدہ؟ جی سے جانے کا
زیبِ تن جوڑا کفن ہونے لگا
’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو،
ہر سُو غضب کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
ہم بھی دربار میں سر اپنا جھکانے جاتے
ضَو سے ہر کنکری گُہَر کر دے
مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم
دُعا کا ہاتھ اپنا کاش ایسے بھی اُٹھا ہوتا
کسی اِک بدن پہ، اِک سا، اگر اختیار ہوتا
اور وارث شاہُ نے ناٹک دکھایا ہِیر کا
نہیں ہے اس میں شامل شائبہ تک ناروائی کا
وہ کہ ہے جو خاکِ پا وہ آسماں ہو جائے گا
ہو کے معزول حدِ ملک سے عُریاں نکلا
ہم سے کُھلنے پر وہ آیا تو بہت سارا کُھلا
اور ابھی دکھائیگا زور آسماں اپنا
بادلوں سا ہے میّسر مجھے ذیشاں ہونا
طے تھا پہلے سے سجنوا کو سزا ہو جانا
جبر ہم پر وگرنہ کیا نہ ہُوا
دھجیوں کا ہُوا گلدان، گریباں نہ ہُوا
اور معالج کئی ایسوں کا مسیحا نہ ہُوا
سانس لینا خلق کا اُس دیس میں بھاری ہوا
سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا
ڈھونڈا بہت ہے پر ہمیں وُہ مِل نہیں رہا
حق بِین و حق شناس تھا میداں کا مرد تھا
آلام ہی کا ذہن میں پل پل ورُود تھا
وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا
گھونسلے میں لوٹے تو گھونسلا جلا پایا
کہہ کے سچ اخبار نے چہرہ گلستاں کردیا
بتا جاناں! تُو اِن میں ہے بسا کیا؟
مہرباں جھونکے جو آئے بھی تو کر پائیں گے کیا؟
بہ دوشِ باد ناچنے سوار کر دیا گیا
وہ جو چشم و دل کا سرور تھا، کوئی لے گیا
بِیچ صحرا کے شجر یاد آیا
وہ نہ مَے سی نگار میں پایا
چاند چہروں کو بڑا فرق پڑا میرے بعد
چونکے نہ بعد میں نیا اخبار دیکھ کر
آنکھوں میں بندھا لاگے ہے ماجد کی سماں اور
ہم رہ سکے نہ خَیر کو بھی شر کہے بغیر
لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس
بِیج کو وقت ہے درکار شجر ہونے تک
بستے بستے بس ہی جائیگی یہ بستی ایک دِن
پاؤں نہ بھولنے کبھی طُولِ سفر کو میں
وہ جسے اوّل و آخر کا خدا کہتے ہیں
سرِدشت آہو کا رم دیکھتے ہیں
رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں
ہم وہ ہیں جن کے سر پہ کہیں آسماں نہیں
ہم ہیں معزول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں
ماجد بدن تھا اُس کا کہ چھاگل سرور کی
کچھ کرے گر تو جاودانی ہے
کب سے نہیں ترس رہا رخت سفر کو میں
ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں
جیسے معاً کہیں سے اضافہ ہو جاہ میں
دل جیسے گلے میں آ گیا ہے
چہرے کے پھول رکھ لیے’ دل کی کتاب میں
ہم ہیںِ معزول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں
خود انگریزتو اپنے دیس سدھار گیا
دہشت و بد نظمی کا رقص ہے راہوں پر
پاکستان پراپرٹی، ڈیلر ہیں سیاست دان
ہم بندگان ہیں اُسی پروردگار کے
چکوال
شاید تختۂ عجز و نیاز ٹھکانے لگا ہے
پھول کھلیں تو کیوں تُو اُنہیں جلائے یارا
مرے مدّعا و بیان میں، ہو ملائمت تری چال سی
منافع سارے اوروں کے، خسارے سب ہمارے ہیں
اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ویسا کروں
مشکلوں سے تہِ نگیں کی ہے
کینٹ کی لینوں میں کیا حکمِ یزیدی چل پڑا
انسان و شیطان
شہ نگر میں یہ کھلبلی کیوں ہے
یہ کہ سامنے کا جو سال ہے
یہ کیا ؟ سوار’ دوش پر ہوا کے کر دیا گیا
بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے
سکندر خارکش!
مِیڈیا داتا کے نام
اوج سے جو گرے، درس دے اوج کا، خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں
بکھریں سب تسبیح کے دانے

Share this:

  • Twitter
  • فیس بک

اسے پسند کریں:

پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

Fill in your details below or click an icon to log in:

Gravatar
WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ ( لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ ( لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ ( لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

منسوخ کریں

Connecting to %s

شاعری

  • ماجد صدیقی (1,095)
  • اصناف (360)
    • ماجد صدیقی (پنجابی کلام) (360)
  • تصانیف (1,170)
    • ہوا کا تخت (103)
    • میں کنّے پانی وچ آں (30)
    • ماجِد نشان (73)
    • وِتّھاں ناپدے ہتھ (123)
    • گُنگے دیاں رَمزاں (75)
    • آنگن آنگن رات (93)
    • آغاز (80)
    • تمازتیں (41)
    • جب ہم نے سفر آغاز کیا (27)
    • دِل دِل کرب کمان (59)
    • ریتنجناں (89)
    • سُونہاں لیندی اکھ (43)
    • سُرخ لبوں کی آگ (35)
    • سخناب (160)
    • شہر پناہ (46)
    • غزل سرا (93)
  • دوسروں کی رائے (51)
  • دیباچہ (10)
  • شاعری (1,339)
    • نظم (157)
    • غزل (1,182)
  • شاعرانہ خراجِ عقیدت (3)
  • شعری البم (4)

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑

Privacy & Cookies: This site uses cookies. By continuing to use this website, you agree to their use.
To find out more, including how to control cookies, see here: کوکی پالیسی
  • فالو کریں فالونگ
    • ماجد صدیقی
    • Already have a WordPress.com account? Log in now.
    • ماجد صدیقی
    • مرضی کے مطابق بنائیں
    • فالو کریں فالونگ
    • سائن اپ
    • لاگ ان کریں
    • Copy shortlink
    • Report this content
    • View post in Reader
    • Manage subscriptions
    • Collapse this bar
%d bloggers like this: