
مگر فن ہے مرا موجود تو کب میں نہیں ہوں گا
ماجد صدیقی مرحوم کی ویب سائٹ پر خوش آمدید۔ ماجد صدیقی عصری اردو ادب کے ایک بے مثال شاعراور ادیب تھے، ان کا اپنا ایک انداز تھا جو ان کے ہم عصروں سے بالکل جدا تھا، تقریباً تین چوتھائی صدی پر محیط اپنے ادبی سفر میں انہون نے نہ صرف بےپناہ ادب تخلیق کیا، بلکہ شعبہ تدریس کے ساتھ بھی نصف صدی تک وابستہ رہے۔
ان کا قلمی نام ماجد صدّیقی اور پیدائشی نام عاشق حسین سیال تھا۔ اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر جن کا شمار منفرد لب و لہجے کے جدیدیت پسند اساتذہ میں ہوتا ہے۔ وہ یکم جون ۱۹۳۸ء کو ضلع چکوال کے گاؤں نور پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد خان سیال اور والدہ کا نام اللہ رکھی تھا جو کہ خود بھی شاعرہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم علاقائی سکولوں میں پائی اور انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ کالج چکوال سے کیا۔
ماجد صدّیقی نے پنجاب یونیورسٹی سے پہلے بی اے اور پھر ایم اے اردو کی ڈگری ۱۹۶۲ ء میں حاصل کی۔ ضلع چکوال کے دیہی علاقوں ڈھڈیال، دھرابی اور کریالہ میں تدریسی فرائض ادا کرنے کے بعد اکتوبر ۱۹۶۴ء میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں بطور لیکچرار تعینات ہو گئے۔ ستمبر ۱۹۶۶ء میں ان کا تبادلہ اٹک کالج (اس وقت کیمبل پور کالج) میں اور دو سال کے بعد تلہ گنگ میں ہو گیا۔ ستمبر ۱۹۷۳ء میں ان کی تعیناتی اصغر مال کالج راولپنڈی میں ہوئی جہاں وہ بائیس سال تک شعبۂِ اردو میں تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد ۱۹۹۵ء میں ریٹائر ہوئے۔
این یو ایم ایل یونیورسٹی اسلام آباد کی طالبہ زوبیہ خان نے ایم اے اردو کے لئے ان کے دو مجموعوں ’’آغاز ‘‘ اور ’’آنگن آنگن رات ‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھا، جب کہ شازیہ خان نے علامہ اقبال یونیورسٹی میں ان کی غزل پر ایم فل کے پروگرام کے تحت مقالہ لکھا۔ مسعود عباسی تیسرے طالبِ علم ہیں جنہوں نے بہاولپور یونیورسٹی سے ایم فل کرتے ہوئے ان کی اردو نظم پر مقالہ تحریر کیا۔
ماجد صدیقی ایک زود گو شاعر تھے انہوں نے اردو ، پنجابی اور انگریزی میں نظم، غزل اور نثر کے ۴۹ مجموعے شائع کیے ۔ علاوہ ازیں علاوہ ان کے ۱۳ مجموعے شائع ہوئے جن میں انہوں نے دوسرے شعراء کا کلام اردو ، پنجابی اور انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ماجد صدیقی کی شاعری کو کسی خاص ادبی تحریک سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ وہ ترقی پسندانہ رجحانات رکھتے تھے مگر وہ اپنی طرز کے تخلیق کار رہے، ان کا ادبی حلقوں میں آنا جانا نہیں تھا اور ان کا حلقۂِ احباب تقریباً تمام عمر بہت محدود رہا۔ ان کے قریبی دوستوں میں ساجد علوی، اختر امام رضوی، عابد جعفری، خاقان خاور، آفتاب اقبال شمیم ، سید عارف اور جمیل آذر شامل رہے، اپنے دوستوں میں وہ خاقان خاور اور اختر امام رضوی کو بہت عزیز گردانتے تھے۔ ان کی شاعری حقیقت سے قریب تر رہی اور انہوں نے اپنے آپ کو اردو ادب کے روایتی موضوعات اور طرزِ اظہار سے شعوری طور پر دور رکھا جس کی وجہ سے ادبی گروہوں میں ان کو وہ قبولیت نہ مل سکی جو ان کا حصہ تھی۔
پاکستان رائٹرز گلڈ نے پنجابی شاعری کی کتاب ’’میں کنّے پانی وچ آں‘‘ پر بہترین کتاب کا ایوارڈ دیا ۔ اس کے علاوہ ان کو نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ایوارڈ کی تقریب سے چار دن پہلے وہ ۱۹ مارچ ۲۰۱۵ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ۔
جواب دیں