جہاں تک مجھے علم ہے‘جاپان کی یہ صنفِ شاعری پہلے دو مصرعوں میں کسی مظہرِ فطرت کو اپنا کینؤس بناتی ہے اور پھرتیسرے مصرعے میں شعور یا وجدان کی ضربی لکیر سے شاعر کے۔۔۔۔ داخلی مُوڈ یا زندگی کے کسی مشاہدے یا تجربے کی ذُو معنویّت کی اشاراتی تصویر کھینچتی ہے لیکن جب۔۔ کوئی صنفِ شاعری اپنا جغرافیہ اور ثقافتی منظرنامہ بدلتی ہے تو اُسے ایک نئی زمین‘ایک نئی روایت اور ایک نئی عصری صورتِ حال میں جذب ہونے کے لیے‘ ہیئت میں نہ سہی لیکن موضوع و مواد میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کے عمل سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔

آج جب کہ ہائیکو اردو شاعری کے تخلیقی عمل میں واضح طور پر شامل ہو چکی ہے اور ہمارے ہر عمر اورہر مزاج کے شاعر خاصی تعداد میں اس صنفِ شاعری کی جانب متوجہ نظر آ رہے ہیں‘تو اس میں نت نئے تخلیقی جوہروں کے کھلنے کا مطالعہ بجائے خود ایک تحقیقی مضمون کا متقاضی ہے۔۔۔۔لیکن مجھے فی الوقت ماجِد صِدّیقی کی ہائیکوز کی بات کرنی ہے‘جو میرے زیرِ مطالعہ ہیں۔

اوّلاً تو مجھے ان میں کہیں دوہے‘ کہیں ماہیے‘کہیں ثلاثی‘کہیں غزل کے شعر اور کہیں رباعی کی باس بلکہ یوں کہیے کہ بُوئے گریزاں کا مزا آ رہا ہے جس سے بچ بچا کر۔۔ماجِد صِدّیقی اس نئی صنفِ سخن میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔زورِ ہُنر ایسا ہے کہ ہر ہائیکو بے ساختہ شعری گفتگو کا لطف دیتی ہے۔مجھے ہر ہائیکو میں کسی نہ کسی کہانی‘منظر‘ داخلی کیفیت یا کسی معاشرتی تمثال و تمثیل کا سراغ ایسے ملتا چلا جا رہا ہے جیسے کوئی پاس بیٹھے پرتوں سے ڈھکی تصویریں دکھا رہا ہو یا پھر آنکھ سے چھپی جگہوں پراچانک کسی نے چراغ جلا کر رکھ دئے ہوں۔

موضوع کے اعتبار سے یہ ہائیکوز بڑی گنجان نظر آتی ہیں جن میں پنسل سکیچز‘رنگین تصاویر اور ابھرواں نقوش کا ایک نگارخانہ آباد ہے۔اگر انہیں لیبل کیا جائے تو ہر ہائیکو ایک نیا مضمون لیے ہوئے ہے۔ذرا یہ دو ہائیکوز ملاحظہ کیجئے

پیڑ پیڑ ہے چوب

جان آشوب سے دھیان ہٹے تو

لکھیے شہر آشوب

خاک میں اُگتی گھاس

جانے کن کن پاتالوں کی

لائے نویلی باس

اِن ہائیکوز میں چھپی رمزّیت کیسی خیال انگیز ہے۔ لیکن یہاں تو ہر ہائیکو خیال کو دعوتِ نظّارہ دیتی نظر آتی ہے۔ہجروفراق کے مضامین‘نیچر کے رنگ بدلتے مناظر‘ مشاہدے میں آنے والی آفاقی صداقتیں‘گیت کے کومل رنگ‘فرد کے نفسیاتی وسوسے‘کسی عام منظر میں زورِ ہُنر سے گہرے معانی کی بازیافت‘زندگی کے جان لیوا حقائق کا فلسفیاتی شعور‘یادِ رفتگاں‘معاشرتی جبر کے خلاف احتجاج وغیرہ وغیرہ۔اتنے مضامین کہ

گنواؤں تو گنوا نہ سکوں

اور یہ بات ہائیکو کی کشادہ دلی کا ایک زندہ ثبوت فراہم کرتی ہے۔

آفتاب اقبال شمیم

۵۱۱؍آئی نائن۔۱‘اسلام آباد