ماجد ثدیقی کا نام اردو اور پنجابی شاعری کے حوالے سے اجنبی یا نامانوس نہیں۔ یہ شخص ایک طویل عرصے سے کسی نہ کسی طور پر شعر و ادب کی خدمت کر رہا ہے پچھلے چند سالوں میں ماجد صدیقی کی کئی کتابیں منظرِ عام آ چکی ہیں اس وقت میرے پیش نظر ماجد صدیقی کے دو مجموعے ’’ہوا کا تحت‘‘ اور ’’یہ انسان‘‘ ہیں آج ان دونوں پر گفتگو مقصود ہے ’’ہوا کا تخت‘‘ 225صفحات پر مشتمل اور دل آویز ٹائٹل کی حامل ہے اس میں 111غزلیں ہیں اور ان میں حروف تہجی کی ترتیب کار فرما ہے ماجد صدیقی کا یہ شعری مجموعہ دیکھ کر اس کی پہلی کتاب آغاز کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

بہت سے نقش ہیں تشنہ ابھی مصورِ حسن

یہ جگ ہنسے گا ابھی سامنے نہ لاؤ مجھے

اور اب احساس ہوتا ہے کہ شاعر کے فکری اوج کی منزل اگرچہ دور ہے لیکن اس کا سفر بڑی صحیح بنیادوں پر آگے بڑھ رہا ہے ماجد صدیقی کی غزل کو دیکھ کر اس الزام کی نفی ہوتی ہے کہ اردو غزل انحطاط اور بحران کا شکار ہے غزل کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حالات کی کروٹوں اور سماجی تغیرات پر بے ساختہ ردِعمل زندگی کی محرومیوں اور پیچیدگیوں کے خلاف بھرپور احتجاج اور روشن نظامِ حیات کے لئے نعرۂ مستانہ اردو غزل کا نشانِ امتیاز رہا ہے۔ جب کبھی انسانی تفکر پر جمود اور بے حسی کے آثار طاری ہوئے ہیں غزل کے خیال انگیز نغموں نے ہی زندگی کی لہریں رواں دواں کی ہیں ماجد صدیقی کی غزل سے یہ تصور واضح طور پر اُبھرتا ہے کہ وہ انسانیت کے عالمگیر رشتوں کا پرستار ہے اور محبت فاتح عالم کو جزو ایمان سمجھتا ہے میرے خیال میں یہی اس کی شاعری کا اساسی جذبہ ہے اس کی غزل کے مجموعی پیکر پر جس جذبے کا غلبہ ہے وہ انسانیت یا ہیومن ازم ہے۔ شاعر کے وژن میں جو وسعت اور پھیلاؤ ہے اس کی وجہ فن سے آگہی، مزاجِ غزل سے آشنائی اور تاریخِ غزل پر عبور ہے اپنے لب و لہجہ اور جذبے کے پھیلاؤ کے لحاظ سے ماجد غزل کو نئی جہت اور نئی روشنی عطا کرنے والا شاعر ہے کچھ شعر ملاحظہ کیجئے۔

پوچھا یہ کس نے حال مری بود و باش کا

چھینٹا دیا یہ کس نے دہکتے تنور میں

چمن میں برق نے پھر کی ہے کوئی صناعی

ہوا کے ہونٹ جبھی واہ واہ کرتے رہے

غزل کی تہذیبی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نئے احساس و رحجان کے ساتھ اس کے تجربوں کا سفر جاری ہے ان اشعارپر غور کیا جائے تو ماجد صدیقی جہاں غزل کی روائتی سج دھج کے ساتھ نئے لہجے اور نئی زبان کے پیوند سے سامنے آتا ہے وہاں یہ احساس بھی اُبھرتا ہے کہ اس نے ہر نئی بات کو دل نشیں انداز اور ہر پرانی بات کو ایک نیا رنگ دیا ہے اس کے ان اشعار میں اسلوب کا جو نیا پن اور جذبے کی جو شان ہے وہ والہانہ داد و تحسین کے قابل ہے۔

پسِ خوشبو بھی مرگِ گل کا منظر دیکھتے ہیں ہم

بہت مہنگا پڑا ماجد، ہمیں اہل نظر ہونا

ان اشعار میں مصحفی کی دھیمی دھیمی حسن کاری آتش کی مرصع سازی میر کی کسک یا ناصر کاظمی کی درد مندی کا احساس ہو تو ہو لیکن نفسیاتی مطالعہ سے شاعر کی ذات پوری انا کے ساتھ ان شعروں میں نمایاں نظر آتی ہے ماجد صدیقی جس لطافت سے غزل میں انفرادیت کا موڑ کاٹتا ہے میرے خیال میں اردو غزل کو پنجابی ذائقے سے آشنا کیا ہے وہاں الفاظ اور اظہار کے سلیقے نے ڈکشن کو لطیف اور سبک بھی بنا دیا ہے حالات کی سنگینی ہو یا جذبات کی لطافتیں، نوائے غم ہو یا خروش مسرت سوچ اور فن کا گہرا رشتہ ماجد صدیقی کے ہاں ٹوٹنے نہیں پاتا معاشرے کے خارجی ڈھانچے کی شکست و ریخت اور آشوبِ ذات کے تصادم سے الفاظ جب تصویروں میں ڈھلتے ہیں تو ماجد کے ذہنی زاویوں کی نشاندہی کچھ اس طرح ہوتی ہے۔

کیا سوچ کر زمیں سے اکھڑ سا گیا ہوں میں

اڑتی پتنگ ہی تو گری ہے مکان پر

اور پھر ؎

دیوار اک اور سامنے ہے

لے چاٹ اسے بھی اب زباں سے

یا یہ شعر:

نہیں ضرور کہ الفاظ دل کا ساتھ بھی دیں

یہ ذائقہ تو سخن میں کبھو کبھو آئے

میرے خیال میں ماجد صدیقی کو یہ کریڈٹ ضرور ملتا ہے کہ غزل کے وسیع کینوس کو رنگین اور چمکدار بنانے میں وہ انتہائی محنت سے کام لے رہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی انفرادیت اس کے مستقبل کی غمازی کرتی ہے۔

یہ تھرتھری سی کیوں ہے ابھی تک بروئے آب

ڈوبا ہے جو اسی کی پریشاں صدا نہ ہو

زباں کے زخم پرانے یہی سُجھاتے ہیں

کہ اب کسی سے بھی دل کا نہ مدعا کہئے

بھنور بھی جھاگ سی بس سطح آب پر لایا

جو تہہ میں ہے وہ ابھی تک ابھر سکا ہی نہیں

ماجد صدیقی کی کتاب ’’یہ انسان‘‘ اس کی نظموں کا مجموعہ ہے جس کا انتساب حضرت ابو ذر غفاریؓ کے نام ہے اور یہ نام جہاں شاعر کے مزاج کی عکاسی کر رہا ہے وہاں خارجی سطح پر علامت کے طور پر اہلِ نظر کو بہت کچھ سمجھا بھی رہا ہے ماجد صدیقی کی نظمیں ایک خاص جذبے خلوص اور درد مندی کی پیداوار ہیں ان نظموں کے مطالعہ سے ایک بات جو واضح طور پر سامنے آتی ہے وہ شاعری کا اپنی دھرتی سے بے پناہ پیار، اور امن و آشتی کے آشتی کے پرچار کا جنون سماجی انصاف کے لئے جہد و عمل اور شاعرانہ ایمان ہے۔

نظموں کے اس مجموعے میں طویل تر نظم ’’یہ انسان‘‘ اسلوب کی وجہ سے جدید نظم کی خوبصورت مثال قرار دی جا سکتی ہے اس نظم میں نا آسودہ خواہشوں کی کسک جہاں شدید ہے وہاں معاشرتی مسائل پر نشتر زنی کا انداز بھی فنکارانہ ہے نظم ’’یہ انسان‘‘ دراصل ذات کے کرب، طبقاتی آویزش، معاشرتی ناانصافیوں اور انسانی شکست و ریخت کی المناک داستان ہے اس نظم میں فکر و خیال کے جو دائرے پھیلتے اور نئے اسلوب کے نئے پن کی جو لہریں رقصاں ہیں انہوں نے نظم میں ایمائیت اور ڈرامائیت کے خوبصورت امتزاج سے عجیب تاثر پیدا کیا ہے میرے خیال میں یہ نظم ایک لحاظ سے استحصالی نظام کے خلاف ایک اعلان نامہ ہے شاعر کے ذہنی اور فکری میلانات کی بھرپور عکاسی ’’لہولہو‘‘ حرفِ دعا ’’یاور کے نام‘‘ نظموں میں بھی ہوتی ہے ان تمام نظموں میں ماجد صدیقی کے داخلی آہنگ کی گونج پوری طرح سنائی دیتی ہے ہر چند یہ نظمیں موضوعاتی ہیں لیکن تخیلاتی حسن اور تخلیقی تموج کی مظہر بھی ہیں ان نظموں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں اُلجھے ہوئے علامت پسند شعراء کی روش کو اپنانے سے گرز کیا گیا ہے یہ نظمیں نہ صرف اسلوب کے لحاظ سے تازہ منفرد ہیں بلکہ مطالب کے لحاظ سے بھی دلکش اور دلفریب ہیں میرے خیال میں یہ انسان کا شاعر اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس نے پنجابی زبان اور شاعری کی حلاوت و حرارت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے اُردو کے قالب میں ڈھال کر اُردو کو جہاں نیا ذائقہ فراہم کیا ہے وہاں زبان کے ایک پروموٹر کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔۔۔ ماجد صدیقی کے غزل اور نظم کے مجموعی تاثر سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ترسیل اور ابلاغ کے معیاروں پر پورا اترنے کے لئے شاعر ہمہ تن مصروف عمل ہے یہ الگ بات کہ آج کے نقاد کی نظر اس پر نہیں میرے خیال میں اگر ماجد صدیقی کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اس جرم میں اس پر مقدمہ چلایا جائے کہ تمہارے پاس شعر کہنے کا جوا کیاہے تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ماجد صدیقی کو عظیم قدروں کی ترجمانی اور انسانیت کا پرستار ثابت کرنے کے لئے اس کے وکیل کے پاس بے شمار مواد ہو گا اور ادب کی عدالت میں یہ سرخروئی کچھ کم اعزاز نہیں۔ ماجد کی شاعری کے متعلق میرا یہ تاثر محض جذباتی بیان نہیں بلکہ گذارش احوال واقعی ہے۔