گزشتہ دس پندہ سال کے عرصے میں جو شاعر متعارف ہوئے ہیں۔ ان میں ماجد صدیقی ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب ان کی اُردو شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ جو آغاز کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

ماجد کی شاعری شعور اور کھلی آنکھوں کی شاعری ہے۔ ان کو اپنے عہد کی سنگینی کا ادراک ہے اور یہ ادراک بڑے سہج سبھاؤ کے ساتھ ان کی شاعری میں رچا ہوا نظر آتا ہے نعرے بازی غلغلہ اور شور کہیں نہیں ہے۔ بلکہ ایک گہرے دریا کی خاموش اتھاہ روانی ہے جو شاعر کی وسعتِ نظر اور عمق دل کا احساس دلاتی ہے۔ گو بعض بعض جگہوں پر روائیتی انداز کے رومانی یا نیم رومانی شاعری کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں مگر ان سے مفر شاید اس لئے بھی ممکن نہ تھا کہ اپنی روائت سے یکسر رشتہ توڑ لینا بھی تو کوئی آسان کام نہیں۔۔۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ ایسے اشعار میں بھی ماجد کے ہاں سلیقہ اور طریقہ ہے۔ شاید اسی بات کو کرنل محمد خاں صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں، ماجد کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے، یوں بیان کیا ہے۔

روایت کے زینے پر کھڑے ہو کر وہ جدت کے نئے نئے اُفق تراشتا ہے اس کا ہر شعر ہماری انفرادی یا سماجی زندگی کی ایک ایسی تصویر ہے جو ہمیں نہ صرف لطفِ نظارہ بخشتی ہے بلکہ دعوتِ فکر بھی دیتی ہے۔

ماجد کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

میں خود ہی کھل اٹھوں گا شگفت بہار پر

موسم یہ ایک بار سنبھالا تو دے مجھے

میں آسمان بھی تھا اور تو چاند بھی لیکن

گھرا تھا ابر سے برسوں میں آ کھلا ہوں میں

تمہاری راہ میں وہم و گماں کا جال تو تھا

مجھے یہ دکھ ہے کہ اس میں الجھ گیا ہوں میں

مرے عذاب کو ماجد یہ سوچ کیا کم ہے

کہ ہوں تو پھول مگر دشت میں کھلا ہوں میں

ماجد غزل اور نظم یکساں مہارت سے لکھتے ہیں۔ ان کی شاعری نرم اور دھیمے انداز کی شاعری ہے۔ بلند بانگی اور کرختگی ان کی شاعری میں تقریباً معدوم ہے لیکن جذبہ اور سوچ ان کی شاعری میں کھل کر سامنے آتے ہے۔ وہ محض جذباتی سطح کی شاعری کے قائل نہیں ہیں بلکہ ناقدانہ اور تجزیاتی رو ان کے پورے کلام میں ساتھ ساتھ چلتی ہے چند شعر ملاحظہ ہوں۔

کشید خاک سے آتش تو کی جلانے کو

کوئی نمو کا بھی رُخ دیجئے زمانے کو

لہو سے لتھڑے ہوئے پاؤں لے کے دھرتی سے

گیا ہے چاند پہ انساں قدم جمانے کو

پہلو میں تھے بہار کے خیمے تنے ہوئے

ہاتھوں میں تھا مرے ترا چہرہ گلاب سا