یہ ہماری ادبی بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں آغاز ہی سے انسانی نفسیات کی خصوصی یافت اس کے ذکر و فکر اور اس کی گرمی ء گفتگو ہی کو صرف ادب اور شاعری کا نام دے دیا گیا ہے۔۔۔ نتیجتاً جو ادب اور شاعری پیدا ہوئے یا جنہیں ادبی ناقدین اور شارحین نے شاعری یا ادب کہا ان میں عمومی نفسیات اور انسانی نفسیات کا ذکر ہی نہیں ملتا بلکہ ادیب نے ارادتاً اس سے گریز کیا۔ اور شعوری اور لاشعوری طور پر یہ توجیہہ کی کہ عمومی انسانی مسائل کے ذکر سے بڑی شاعری یا بڑا ادب پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس صورت حال نے ہماری صحافیانہ سیاسی اور رزمیہ شاعری کو درجہ دوم کی شاعری قرار دے کر ادبی نقادوں کی آنکھوں سے دور کر دیا ہے۔ میرے خیال میں وقت آ پہنچا ہے کہ ادبی محقق اس صورت حال کا ازسرنو جائزہ لے اور ایسی تحریروں کی ادبی قدر و قیمت کا تعین کرے۔

ہم ایک مارشل قوم ہیں اور طبل جنگ کی آواز دوسری قوموں کی نسبت ہمارے خون کو زیادہ گرماتی ہے۔ اور یہ چیز اس بات کی متقضی ہے کہ وطن کے بارے میں کی گئی شاعری کو اس کا جائزہ مقام دیں۔

ماجد صدیقی کی کتاب۔ ’’شاد باد منزل مراد۔‘‘ وطن اور وطن میں جینے بسنے والے لوگوں کے عمومی مسائل عمومی سوچ اور عمومی فکر و خیال کا احاطہ کرتی ہے۔ لیکن ماجد نے طبل جنگ بجا کر نہیں بلکہ قومی بے حسی اور بے ضمیری پر تازیانے برسا کر ہمارے لہو کو گرمایا ہے۔ جس کا تفصیلی تذکرہ اگلی سطور میں آئے گا۔ آئیے پہلے کتاب دیکھتے ہیں۔ کتاب کا پہلا صفحہ الٹتے ہی فیض احمد فیض نظر پڑتے ہیں جن کے خیال میں ’’ماجد صدیقی خوش فکر اور خوش گو شعرا میں سے ہیں اردو اور پنجابی میں یکساں سلیقے اور سہولت سے لکھتے ہیں۔ منظوماتِ داد و تحسین کی مستحق ہیں۔‘‘

لہجہ مربیانہ اور مشفقانہ ہے مگر اس خیر خواہانہ جذبے کے باوصف شاعر اور اس کی شاعری کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔

کتاب کا دوسرادیباچہ افضل رندھاوا کا تحریر کردہ ہے جس میں ماجد صدیقی کو۔ ’’ایک نہایت خطرناک شاعر۔‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

’’خطرناک اس لئے کہ وہ اردو پنجابی اور جانے اور کون  کون سی زبانوں میں شاعری کرتا ہے۔ نہایت اس لئے کہ وہ شاعری کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتا ہے۔‘‘

دوستانہ لہجے کی یہ شوخی ماجد اور ماجد کی منظومات کا کوئی بھید قاری پر نہیں کھولتی۔ ماجد میرا بھی دوست ہے اس لئے مجھے اور ماجد کے قاری کو لفطوں کی سیڑھیاں لگا کر خود ہی ماجد کے دل تک پہنچنا پڑے گا۔

ماجد ہم پر ایک شاعر کی حیثیت میں منکشف ہوا ہے لیکن اگر اس کی شاعری کے پس منظر میں کارفرما ماجد کا کسی قدر وقت سے مطالعہ کیا جائے۔ تو رفتہ رفتہ ہماری ملاقات اس ماجد صدیقی سے ہونے لگتی ہے۔ جو بیک وقت افسانہ طراز مصور اور موسیقار ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک اداکار بھی ہے ایک ایسا اداکار جو کسی دوسرے کے محسوس کردہ جذبات کو تمثیلی رنگ نہیں دیتا بلکہ یہ جذبات سرا سر اس کے اپنے ہوتے ہیں کھرے اور سچے جذبات۔ جو اس کے اپنے وجدان ہی سے پھوٹتے اور اس کے شعری قالبوں میں ڈھل کر حقیقی صداقتوں کے نقش بن جاتے ہیں۔

شاد باد منزل مراد کا شاعر ماجد بھی ان سارے خصائص کے ساتھ ہم پر کھلتا ہے۔ وہ ایک ایک اُداس منظر میں رچا بسا دکھائی دیتا ہے۔ وہ خود ستم رسیدہ ہے اور ہر ستم رسیدہ شخص کی آواز اس کے اپنے درد کی آواز بن جاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ اس کی ستم رسیدگی ان دیر پا زیادتیوں اور ناہمواریوں کے بطن سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جن سے اسے جنم جنم کا واسطہ ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور سے اسے ٹی بی کا ایک مریض صاحب استطاعت شخص سمجھتے ہوئے امداد طلب انداز میں پکارتا ہے تو ماجد اس بظاہر معمولی واقعے کو بھی انتہائی اہم قومی مسئلہ بنا دیتا ہے۔ مثلاً اس کی نظم ’’معذرت‘‘ کے آخری دو شعر دیکھئے۔

ہاں مگر اتنا کہوں گا کہ خداوند جہاں

کب تری عرض مری بات کو سن پائے گا

کب تری چیخ پہ دھڑکے گا دل ارض وطن

میری فریاد پہ کب رحم اسے آئے گا

وہ بھکارن کو دیکھتا ہے تو اس کی اپنی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ وہ اس بظاہر معمولی منظر پر بھی پوری وابستگی سے پکار اٹھتا ہے۔

میری آنکھوں کے اشکوں سے اوکوں دامن بھر لے تو

ایک یہی خیرات ہے میرے پاس قبول جو کر لے تو

(نظم خیرات سے اقتباس)

قومی آشوب مقابلتاً ماجد صدیقی کی نظموں۔ ’’مامتا سے محرومی کا دکھ۔‘‘ ’’آج کے دن‘‘۔۔۔ ’’بنام قائد‘‘۔۔۔ ’’اے مرے فسردہ وطن‘‘۔۔۔ ’’دل دو نیم‘‘۔۔۔ عذاب و عتاب‘‘ میں زیادہ گونج دار شکل میں ابھرتا ہے۔ اور اذہان و اعصاب پر دائرے پھیلاتا چلا جاتا ہے۔۔۔ ’’اے مرے فسردہ وطن‘‘ مجموعے کی دوسری طویل نظم ہے۔۔۔ یہ نظم آٹھ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جس کے لئے شاعر نے اک رواں بحر کا انتخاب کیا ہے۔ نظم کے ہر بند سے شاعر کا شعلہ احساس تند و بے باک ہو کر لپکتا ہے۔ نظم جذبے کی شدت بہاؤ اور وانی کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اور ہمارے منافقانہ دوغلے اور مصنوعی قومی کردار کی عکاس ہے۔

میں اس مقام سے پلٹا ہوں اے وطن کہ جہاں

سکوتِ مرگ سے بڑھ کر سکوت طاری تھا

جسے جہاں بھی کوئی اختیار تھا حاصل

وہ شخص جذبہ انسانیت سے عاری تھا

’’دل دو نیم‘‘ المیہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اور اس کے لئے بھی طویل بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اور اسے کامیابی سے نبھایا گیا ہے۔ شاعر ایک طرف احساسِ تفاخر کا ذکر کرتا ہے جبکہ دوسر طرف اس احساس کے چھن جانے کی ندامت ہزیمت اور شرمندگی کا بھی۔

اے وطن تیری آنکھوں سے آنکھیں مری چار ہونے سے عاری ہوئیں ان دنوں

ریزہ ریزہ ہوئیں سانس کی ڈوریاں ساعتیں مجھ پہ بھاری ہوئی ان دنوں

سال ہا سال کی سر فرازی مری دیکھتے دیکھتے خاک میں مل گئی

جس کی تعمیر نسلوں سے منسوب تھی اس عمارت کی بنیاد تک ہل گئی

(دل دو نیم)

اور یہ سب کچھ کیوں ہوا اس لئے کہ:

قوم کا درد جس کو بھی لاحق ہوا قید خانوں کے در اس پہ کھولے گئے

خشک میزان پردار کی اہلِ دل بے ثبوت خطا روز تو لے گئے

قومی سطح پر ہم پر مصیبتیں ٹوٹ ٹوٹ پڑتی ہیں مگر بے حسی کا عالم دیدنی ہے۔ یہاں تک کہ آسمانی عتاب بھی ہماری بے حسی کے جمود کو توڑنے سے عاری ہے۔ 1973ء میں پنجاب میں سیلاب آیا جو عذاب الٰہی سے کم نہ تھا مگر احساس کی سطح پر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔

ہماری سانس اکھاڑی گئی ہے حیلوں سے

ہماری کھال ادھیڑی گئی ہے رہ رہ کر

کچھ اس ادا سے بہایا گیا ہے جسم سے خوں

کہ پتھروں پہ چلے جیسے تیشۂ آذر

ترے ہی نام پہ جو قرض غیر سے مانگا

ترے زوال کے اسباب پر وہ صرف ہوا

جواریوں کی طرح ہاتھ جو بھی کچھ آیا

بنام اوج اسے داؤ پر لگایا گیا

ہر ایک شخص ہے سنگ فتادۂ تہ آب

وہ بے حسی کا نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

یہ کس مہیب سفر پر رواں ہیں ہم سارے

کہ چل دئے تو جنہیں کوئی روکتا ہی نہیں

یہ کس طرح کا سکوں ہے ہمارے چہروں پر

کہ جیسے قافلہ اپنا کہیں لٹا ہی نہیں

کس آئنے کے یہ ٹکڑے ہیں میرے دیس کے لوگ

بکھر گئے تو جنہیں کوئی جوڑتا ہی نہیں

لیکن ماجد صدیقی جو اس آشوب کی آگہی رکھتا ہے اس کے درمیان کے اسباب بھی جانتا ہے کبھی کبھی یہ اسباب مشکل ہوتے نظر آتے ہیں اور کبھی کبھی خواب نامے کی صورت احتیار کر جاتے اور شاعر آنے والے اچھے وقت کی آرزو میں کھو جاتا ہے چنانچہ ماجد کی نظموں۔۔۔ ’’حصارِ شب سے نجات کا نغمہ‘‘۔۔۔ ’’یوسفانِ وطن کے نام‘‘ (جنگی قیدیوں کے استقبالیہ نظم) ۔۔۔ ’’دوسری تعبیر‘‘ (اسلامی سربراہی کانفرنس کے پس منظر میں)۔۔۔ ’’نغمۂ تشکر‘‘ (قیدیوں کی واپس مکمل ہونے پر)۔۔۔ ’’میں ایک ماں ہوں‘‘ سے جہاں قومی آشوب سے بچاؤ کی کوششیں سامنے آتی ہیں وہاں مستقبل اور اچھے خواب کا وہ خواب نامہ بھی ابھرتا ہے جس کے ہم سب آرزو مند ہیں۔ محولہ بالا نظموں سے قوم کے ماضی قریب کا علم ہوتا ہے اور ان کوششوں کا بھی جن کے طفیل ہم بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہیں۔۔۔ ’’حصارِ شب سے نجات کا نغمہ‘‘۔۔۔ اس سلسلے کی روشن مثال ہے۔

’’میں ایک ماں ہوں‘‘ اس مجموعے کی طویل ترین نظم ہے جو تیرہ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے نظم ایک ماں کی خود کلامی سے شروع ہوتی ہے اور خود کلامی ہی پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ ماں کا بیٹا فوج کا سپاہی ہے اور دشمنوں کی قید میں ہے لیکن وہ اپنے تمام تر ذہنی اور جذباتی کرب کے باوجود دوسری ماؤں کا دکھ بھی ذہن میں رکھتی ہے اس کا بیٹا استعارہ بن جاتا ہے یہاں تک کہ ہر جنگی قیدی کا چہرہ اس میں جھلملانے لگتا ہے اس طرح ذاتی کرب کا احساس قومی کرب میں ڈھل جاتا ہے۔ نظم اس لئے کامیاب ہے کیونکہ وہ اپنی طوالت کا سارا سفر مربوط دائروں کی صورت میں طے کرتی ہے ورنہ طویل نظموں میں اکثر اوقات شاعر کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے بات شروع کہاں سے کی اور اسے سمیٹنا کہاں ہے۔

’’میں ایک ماں ہوں‘‘ کا ایک بند لاحظہ ہو۔

وہ میں ہی ماں ہوں

جحو ایک جیالے محافظ مادر وطن کی

عظیم قربانیوں کے جذبوں کا

اولیں چشمہ رواں ہوں

ہزاروں بچوں کی

توتلی بولیوں سے لبریز اک زباں ہوں

نظم میں جا بجا ان باتوں کے اشارے بھی ملتے ہیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے اس طرح اس کتاب میں وطن دوستی وطن کے آشوب اور قومی آشوب سے آگاہی اور اس سے نجات اور مستقبل کے خواب نامے کا تصور سبھی کچھ موجود ہیں اور میرے نزدیک قومی نظمیں اپنے اندر یہی تقاصا رکھتی ہیں۔

کتاب میں چھ اردو غزلیں اور دو پنجابی نظمیں بھی ہیں غزلیں بھی خوب ہیں اور نظمیں بھی۔ بالخصوص وہ غزل جو غالب کی نذر کی گئی ہے۔

دی مجھ کو شناساؤں نے زک جیسی

یوں بخت رقیباں کبھی یاور نہ ہوا تھا

ماجد صدیقی اس لحاظ سے مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی حالات میں ان قومی نظموں کا پہلا پھول برسایا ہے دیکھیں اب اس کی تقلید میں اور کون سرِ میدان آتا ہے۔