ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 202
جگہ جگہ آنکھوں میں چُبھتے منظر ہیں
ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں
گُن جتلاتے ہیں کیوں ہم، آقاؤں سے
ہم جو حلقہ بگوشی ہی کے خُوگر ہیں
خودی کمائی ہے کیا؟چھینا جھپٹی سے
اوج نشینوں نے، جو سارے خود سر ہیں
عدل گہوں پر بھی ہے گماں زندانوں کا
عادل تک بھی جہاں کے اسیرانِ زر ہیں
نرخوں اور رویّوں تک میں دہشت کے
چُھپے ہُوئے کیا کیا پُھنکارتے اژدر ہیں
کب سے چِھنی ہے اِن سے جانے خوش خُلقی
شہر شہر کیونکر اُجڑے، بستے گھر ہیں
کانوں میں تو گُونج صدائے فلاح کی ہے
حال ہمارے ہی ماجد کیوں ابتر ہیں
ماجد صدیقی