ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 155
جبر و جفا ہے، قہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
ہر سُو غضب کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
گم ہو گئی تھی جس میں وہ لیلیٰ کا دشت ہے
سر پر کڑی دپہرہے اور ہم ہیں دوستو!
سانسوں دواؤں رشتوں غذاؤں تلک میں بھی
حرص و ہوا کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
قدموں پہ گنگناتی ہوئی، دسترس سے دور
لطفِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
زورآوروں کے بِیچ جھپٹّے ہیں نَو بہ نَو
ٹیڑھی ادائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
بے امن و بے سکوں ہے جو ہر لحظہ ہر گھڑی
بستا اجڑٹا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
نذرِ منیرنیازی
ماجد صدیقی