ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 183
جو نظر کی شاخ کا بُور تھا، کوئی لے گیا
وہ جو چشم و دل کا سرور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ دید جس کی نشہ شہی سا لگا کیا
وہ کہ وجہِ ناز و غرور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ دل میں جس کا قیام، دل کاوقار تھا
وہ کہ چیت رُت کا ظہور تھا، کوئی لے گیا
وہ جو مستیاں تھیں فضاؤں میں وہ ہوا ہوئیں
وہ کہ شاخچوں پہ انگور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ جس کے لفظ تھے ضو فشاں شب تار میں
وہ کہ میرے عشق کا طور تھا، کوئی لے گیا
ماجد صدیقی
جواب دیں