ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 136
بوریا بستر باندھنے کا وقت آنے لگا ہے
شاید تختۂ عجزونیاز ٹھکانے لگا ہے
چرخِ سخن سے کونسا تارا جھڑنے کو ہے
کس بد خبری کا جھونکا لرزانے لگا ہے
کم تولیں اور نرخ زیادہ لکھ کے تھمائیں
اہلِ غرض کا سفلہ پن دہلانے لگا ہے
ملزم نے اتنی رشوت ٹھونسی ہے اس کو
تھانے دار اب ملزم سے کترانے لگا ہے
مجھ کو بِل میں گُھسنے سے پہلے ہی اُچَک لے
چوہا بلّی جی کو یہ سمجھانے لگا ہے
نیولا داؤ دکھا کے سانپ نوالہ کرکے
حلق سے آگے بھیج کے کیا اٹھلانے لگا ہے
ماجد گروی رکھ کے ہمارے آتے دنوں کو
ساہوکار ہمیں کیا کیا بہلانے لگا ہے
ماجد صدیقی