ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 180
شگفتِ گُل ہے کیا؟ رقص صبا کیا؟
بتا جاناں! تُو اِن میں ہے بسا کیا؟
چڑھا کر ناک چھوتا ہے جو ہر شے
لکھے گا امتحاں میں لاڈلا کیا؟
پسِ ابروہوا جھانکے ہے چندا
حیاداری میں وہ ہم پر کُھلا کیا؟
تڑپتے بوٹ جیسے گھونسلوں میں
سسکنے لگ پڑی خلقِ خُدا کیا؟
نگاہِ شاہ طُرّوں پر لگی تھی
بہ سوئے کمتراں وہ دیکھتا کیا؟
نہیں جب سامنے، جس نے بنائے
نصیبوں کا کریں اُس سے گِلا کیا؟
لبوں کو ہے جو لپکا چُومنے کا
ہماری اِس میں ہے ماجد خطا کیا؟
ماجد صدیقی