ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 176
طُرّہ یہی حیات کا بہرِ نمود تھا
آلام ہی کا ذہن میں پل پل ورُود تھا
افسوس یہ ہے یہ تو سمجھ ہی سکا نہ میں
شامِل ہر ایک خَیر میں میرا وجود تھا
آباد ہم بھی اُس رہِ آباد پر ہُوئے
کچھ گرد جس کی دَین تھی، کچھ شور و دُود تھا
ایثار ہی کا درس بڑوں نے دیا مجھے
چاہت شروع ہی سے مرا تاروپود تھا
جیون میں ہاں وُہی تو مرے مہرباں رہے
جن کا بزعمِ خویش وطیرہ ہی جُود تھا
پلّے پڑی رہی ہے اُنہی کے تمام قَوم
تذلیلِ قوم جن کے لیے کھیل کُود تھا
ماجد سخن جو وقف کیا بھی تو اُن کے نام
پیشہ زِیاں دَہی تھا، غرض جن کی سُود تھا
ماجد صدیقی
جواب دیں