ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
ہو عقیدت کہ ہو نکاح وہ یار
کیوں ہو تجدید ان کی بالتکرار
وہ عنایات کھو گئی ہیں کہاں
رقصِ بادِ صبا و صَوتِ ہزار
جاں بھی مانگو تو اہلِ دل دے دیں
عشق، کم ظرف کا ہے دو، دو، چار
رُوئے گاہک مگن رعایت پر
رُوئے تاجر کا ہے کچھ اور نکھار
حلف اک رہبر و سپاہی کا
وہ لٹیرا ہے، یہ ہے جاں نثار
پینے والا زمیں پہ آن اُترے
جب بھی اُترے ذرا سا مَے کا خمار
دیکھ ماجد کہاں پہ جا پھولے
اپنے من موہن و رفیع و کُمار
ماجد صدیقی
جواب دیں