ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
سیہ بختی، گراوٹ پر اجارے سب ہمارے ہیں
منافع سارے اوروں کے خسارے سب ہمارے ہیں
نگر میں نام پر الزام ہے جن کے، شقاوت کا
بظاہر خیر کے ہیں جو ادارے سب ہمارے ہیں
بھلے وہ شیر میں پانی کے ہوں یا جھوٹ کے سچ پر
ملاوٹ پر جو مبنی ہوں وہ دھارے سب ہمارے ہیں
شرارت ہو کہیں برپا ہمارے سر ہی آتی ہے
سجھائیں بدظنی ہی جو اشارے سب ہمارے ہیں
کہیں سے ہاتھ جگنو بھی جو آ جائیں تو ہم سمجھیں
فلک پر جس قدر ہیں ماہ پارے سب ہمارے ہیں
ہمارے پہلوؤں میں جو سلگتے ہیں ہمہ وقتی
جو ماجد وسوسوں کے ہیں شرارے سب ہمارے ہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں