ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
جبر نے ہم سب کے چپ رہنے کو کیا اچھّا کیا
شہر بھر کو خامشی کا پیرہن پہنا دیا
کچھ نہیں نایاب لیکن ہے گراں یابی بہت
تاجروں نے بھی خلافِ خلق کیا ایکا کیا
اُس دھڑے نے جو اُسے اونچا اُٹھا کر لے گیا
بالا دستی میں اُسی سے ہے سلوک الٹا کیا
کیا کہیں اِس عہد کے منصف بھی آمر ہو گئے
ہاں جنہوں نے بھی کیا جو، آمروں جیسا کیا
وہ کہ جو بھی تھا گُنی، ترسا کیا پہچان کو
جو بھی پتّے باز تھا قد اُس نے ہی بالا کیا
بالادستوں کا جو بالا دست ہے اُس ڈھیٹ نے
جو بھی برتاؤ کیا ہم سے وہ دانستہ کیا
وہ کہ نکلے ڈھونڈنے ماں باپ سے راہِ فرار
کیا کہوں ماجد! یہ دل، کیسے اُنہیں دیکھا کیا
ماجد صدیقی