ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
آج کے اِس عہد شیریں کا نیا فرہاد بن
حکمراں میرے وطن کے! احمدی نژاد بن
فکر کر امروز کی اور فکرِ فردا چھوڑ دے
چھوڑ سارے وسوسے تو بندۂ آزاد بن
نقش کر کے آ گزرتی ساعتوں پر اپنا دل
ہاتھ سے نکلے زمانوں کی سہانی یاد بن
عظمت انسان کے یا ناتواں کے کرب کے
کر وظیفے رات دن اور حافظ اوراد بن
فتح کر لے خوبیوں سے جو نگر والوں کے دل
خوشبوؤں سے لیس ہو کر آئے جو، وہ باد بن
خدمت خلقت کا جس کو ہو فراہم مرتبہ
باعثِ آسودگی ٹھہرے جو، وہ ایجاد بن
گھرترا، تیرا سخن ’ماجد نشاں، ہے اور تو
جانِ ماجد فکر تازہ سے سخن آباد بن
ماجد صدیقی