ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
جو بھی منظر ہے ٹھہرے یہاں دِیدنی آنکھ اپنی جسے دیکھ پاتی نہیں
اَوج سے جو گرے، درس دے اَوج کا خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں
تخت جن سے چِھنے، وَقر جن کا لُٹے وقت پرغافلِ فرض، گر ہوں رہے
چاہے پیدا دوبارہ بھی ہوں تو اُنہیں خلقتِ شہر عزّت دلاتی نہیں
اک طرف اپنے ہاں ایک مخلوق ہے، خطِ غربت سے نیچے جو رہ کر جیئے
دوسری سمت مخلوق ایسی بھی ہے قرض سرکار کے جو چُکاتی نہیں
لاڈلی ہو کہ لائق ہو جیسی بھی ہو بعد شادی کے وہ کام والی بنے
جو بھی بیٹی کہیں ہے بیاہی گئی، لَوٹ کراپنے میکے وہ آتی نہیں
’’عمرِ آخر! کوئی سُر سُنائی نہ دے‘، تاب سُننے کی جانے کہاں کھو گئی
کوئی گُل باغ میں کِھلکھلائے نہ اب کوئی بلبل کہیں چہچہاتی نہیں
دشت و گلشن میں رقصاں ہوئیں وحشتیں سارے بھنورے دِبک کر کہیں رہ گئے
خوفِ دہشت سے یوں ہے ڈرائی گئی فاختہ اب کہیں اُڑنے جاتی نہیں
بات میری یہ سُن ماجِد خستہ جاں! حرفِ حق کا جو تریاق تُجھ پاس ہے
خلقتِ شہر جو بھی سہے سو سہے تیرا نسخہ یہ، وہ آزماتی نہیں
ماجد صدیقی