ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
شاعری میری عبادت، شاعری میرا شعار
اور طبعاً ہے مرا اللہ والوں میں شمار
میرے جیون کے ورق سرچشمۂ آب بقا
چاندنی میرا سخن ہے، فکر ہے فصلِ بہار
اُس کے پانے کو ہماری سادگی یہ دیکھنا
کاغذی ناؤ میں بچّوں سے چلے دریا کے پار
کچھ شدائد میں ملوث، کچھ بکھیڑوں میں پڑی
حرص کے رسیا مزے میں، خلق ہے زار و نزار
راہبر کچھ کر نہیں پاتے مگر دعوے بہت
دیکھنا یہ تیل بھی اور دیکھیے گا اِس کی دھار
ٹوٹ کر بکھرے ملیں دانے کہیں تسبیح کے
اور بکھر جاتی ملے ماجد کہیں چڑیوں کی ڈار
ماجد صدیقی