ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
تیر ہی چاہے تنے کے ساتھ لگ کر کھائیے
یہ بھی اِک رسمِ جنوں کیونکر نہ اب دُہرائیے
کر بھی کیا لے گا کہ دل بچّہ ہے اِک بے آسرا
جھڑکئے یا دے کے میٹھی گولیاں بہلائیے
چاہئے کچھ شغل، دشمن تو کبھی کا جا چکا
نفرتوں کا زہر آپس ہی میں اب پھیلائیے
قبر تک جائے گا تکمیلِ تمنا کا خیال
یعنی انگوٹھا یہی اب چوستے سو جائیے
بیٹھئے بھی تو سخن نا آشنا لوگوں کے پاس
گوش و لب گھر سے نکلتے ہی کہیں رکھ جائیے
ماجد صدیقی