ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
تبر بہ دست بھی ہے جس کا آسرا ہے مجھے
ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے
رہِ سفر کا مرے رُخ ہی موڑ دے نہ کہیں
یہ دستِ غیب سے پتّھر جو آ پڑا ہے مجھے
جو دے تو میری گواہی وہ شاخِ سبز ہی دے
پنہ میں جس کی یہ تیرِ قضا لگا ہے مجھے
عجب عذاب ہے یہ تہ رسی نگاہوں کی
چٹک کلی کی بھی اب خاک کی صدا ہے مجھے
میں اُس مقام پہ ماجدؔ پہنچ گیا ہوں جہاں
یہ خامشی بھی تری حرفِ مدّعا ہے مجھے
ماجد صدیقی