ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
کوئی فریب سکھاؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
یہ تہمتیں تو مرے روگ کا علاج نہیں
مجھے نہ مجھ سے ڈراؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہیں بھی لوگ کھلونا سمجھ نہ لیں آخر
مرے قریب نہ آؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہاری آنکھ بھی بنجر نہ ہو کے رہ جائے
نظر نہ مجھ سے ملاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ملاہے اوج اگر باتمام عجز تمہیں
یہ گُر مجھے بھی سکھاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
نہ اشکِ خون‘ نہ ہوں لعلِ ناب ہی ماجدؔ
کہیں تو مجھ کو سجاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ماجد صدیقی