ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
سہمے تھے چمن کے نغمہ گر بھی
چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی
محرومِ ہوائے گل رہے ہم
ہر چند کھُلے تھے اپنے در بھی
انجام سے جیسے باخبر تھے
ٹھِٹکے رہے گُل بہ شاخِ تر بھی
ہے جاں پہ نظر سو وہ بھی لے لے
اے درد کی رو! کہیں ٹھہر بھی
کچھ کچھ ہمیں مانتے ہیں اب کے
اِس مُلکِ سخن کے تاجور بھی
اک صبر ذرا، وہ دیکھ ماجدؔ
کھُلتا ہے دریچۂ سحر بھی
ماجد صدیقی
جواب دیں