ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
شاخ و شجر سے ابرِ کرم ہی خفا نہ ہو
داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو
ہاں ہاں فتُور یہ بھی مرے عجز کا نہ ہو
سائل ہوں جس کا خود کو سمجھتا خدا نہ ہو
موجِ صبا ہی ہو نہ کہیں در پے فساد
پتّوں کے درمیاں وہی شورش بپا نہ ہو
یہ تھر تھری سی کیوں ہے ابھی روئے آب پر
ڈوبا ہے جو اُسی کی پریشاں صدا نہ ہو
جس میں ہوئی تھیں میری تمنّائیں جاگزیں
بُغضِ ہوا سے پھر وہی خیمہ اُڑا نہ ہو
یارانِ ہم بساط سے بے زار تھا بہت
ماجدؔ بساطِ شوق اُلٹ ہی گیا نہ ہو
ماجد صدیقی