ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
راحتوں کی صورت بھی بس یہی نظر آئے
کند ہو چکے جو بھی وُہ مراد بر آئے
ہے یہی بساط اپنی نام پر خداؤں کے
معبدوں میں جا نکلے، جا کے آہ بھر آئے
یہ بھی دن دکھا ڈالے حُسن کی اداؤں نے
پھوُل تک سے وحشت ہو چاند تک سے ڈر آئے
ہم سے بھی کوئی پوچھے کُچھ دلوں کی ویرانی
گھوم پھر کے ہم بھی تو ہیں نگر نگر آئے
یوں تو آٹھ پہروں میں نت ہی دن چڑھے ماجدؔ
جس طرح کی ہم چاہیں جانے کب سحر آئے
ماجد صدیقی
جواب دیں