ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 94
سخن سرا تھا جو لڑکا سا ایک، گاؤں کا
ہر ایک شہر ہے شیدا اب اُس کے ناؤں کا
ہوا نہ حرفِ لجاجت بھی کامیاب اپنا
چلا نہ اُس پہ یہ پتا بھی اپنے داؤں کا
پسِ خیال ہو بن باس میں وطن جیسے
بہ دشتِ کرب، تصوّر وہی ہے چھاؤں کا
کسے دکھاؤں بھلا میں یہ انتخاب اپنا
گلہ کروں بھی تو اب کس سے آشناؤں کا
تلاشِ رزق سے ہٹ کر کہیں نہ چلنے دیں
ضرورتیں کہ جو چھالا بنی ہیں پاؤں کا
بلک رہا ہوں کہ کہتے ہیں جس کو ماں ماجدؔ
اُلٹ گیا ہے مرا طشت وہ دعاؤں کا
ماجد صدیقی