ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
اِن ہونٹوں پر پھول کھِلائے ہم نے بھی
اُس ناری کے رنگ چُرائے ہم نے بھی
ہم بھی لائے اِن تک زہر تمّنا کا
امرت کو یہ لب ترسائے ہم نے بھی
لوٹ کے رنجش اور بھی اپنے آپ سے تھی
اہل حشم کو زخم دکھائے ہم نے بھی
سنگ بھگوئے پہلے اوس سے آنکھوں کی
اور پھر اُن میں بیج اُگائے ہم نے بھی
دے کے ہمیں پھر خود ہی زمیں نے چاٹ لئے
پھیلائے تھے کیا کچھ سائے ہم نے بھی
اچّھے دنوں کی یاد کے اُجلے پھولوں سے
دیکھ تو، کیا گلدان سجائے ہم نے بھی
چہرے پر آیات سجا کر اشکوں کی
ماجدؔ کیا کیا درس دلائے ہم نے بھی
ماجد صدیقی
جواب دیں