ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
سر پہ کیا کیا بوجھ روز افزوں نظر آنے لگے
عمر ڈھل جانے لگی اور قرض بڑھ جانے لگے
بحر میں حالات کے، بے رحم موجیں دیکھ کر
اژدہے کچھ اور ہی آنکھوں میں لہرانے لگے
مِہر کے ڈھلنے، نکلنے پر کڑکتی دھوپ سے
گرد کے جھونکے ہمیں کیا کیا نہ سہلانے لگے
تُند خوئی پر ہواؤں کی، بقا کی بھیک کو
برگ ہیں پیڑوں کے کیا کیا، ہاتھ پھیلانے لگے
وحشتِ انساں کبھی خبروں میں یوں غالب نہ تھی
لفظ جو بھی کان تک پہنچے وہ دہلانے لگے
چھُو کے وسطِ عمر کو ہم بھی شروع عمر کے
ابّ و جدّ جیسے عجب قصّے ہیں دہرانے لگے
اینٹ سے ماجدؔ نیا ایکا دکھا کر اینٹ کا
جتنے بَونے تھے ہمیں نیچا وہ دکھلانے لگے
ماجد صدیقی