گریجوایٹ ہونے اور ڈگری کیحصول کے بعد دارالحکومت کی یاترہ کے دوران ہمیں دوبارہ اسی تنخواہ پر کام کرنے کا خیال محض روزینے کے حصول یا پرانی جگہوں سے انس کے باعث انہیں آیا تھا بلکہ راولپنڈی میں منتقل بجاطور پر ایک تو ہماری ادبی لگن کے باعث بھی تھی لیکن اس کا دوسرا اور اہم پہلو یہ تھا کہ شہر کیایک کالج میں ایوننگ کلاسز اٹنڈ کر کیایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کی دھن میں محو بھی تھے، مگر اس شہر خوبی میں قدم ہی نہ جمنے پائے اور وقت مسلسل قدموں تلے سے کھسکتا نظر آیا تو ہم نے وہی راہ اپنا نامناسب سمجھی جس پر چل کر ہم ایف اے سے بی اے ہوئے تھے۔
دیوار اک اور سامنے ہے
لے چاٹ اسے بھی اب زباں سے
لہذا جب دوبارہ سوئے منزل روانہ ہوئے تو مشکلات جن سے ایک بارہم گزر چکے تھے ازسرنو ہماری راہ دیکھتی نظر آئیں امتحان میں شرکت کے لئے وہی اجازت نامے کا چکر ہیڈماسٹر کی رضامندی کا معاملہ، کتابوں کی نایابی اور اسی طرح کے جانے اور کتنے بکھیڑے تھے جن کا ہمیں سامنا تھا اس کے باوجود
زندگی جب عبارت کامرانی ہی سے تھی
مات کھانا درد سے اپنے لئے دشوار تھا
جیسا عزم راسخ بھی ہمارے ہی اندر موجود تھا چنانچہ اس دور میں ہمہ دم وہی حکایت ہمارے پیش نظر رہی جس میں کسی بادشاہ سلامت نے یکایک اپنی نگرانی میں اعلان کرا دیا تھا کہ اگر کوئی شخص پوہ ماگھ کی رُت میں ایکرات دریا میں کھڑے ہو کر گزار دیتو آنجناب اسے کسی شیریں کا رشتہ تو نہیں دیں گے، البتہ اس کا منہ اشرفیوں سے ضرور بھردیں گے جس کے جواب میں کسی ماہر نفسیات نوجوان نے نہ صرف یہ کہ یہ شرط قبول کر لی بلکہ شب مشروط گزار بھی ڈالی اور جب انعام وغیرہ کی رقم اسے مل گئی تو ہر چند کہ اس زمانے میں پریس کانفرنسوں کا رواج نہ تھا پھر بھی اس سے اس کامیاب کا راز بغیر کسی سزا کی دھمکی کے پوچھا گیا تو اس نے کہا ’’دریا سے بہت دور، آگ ا ایک الاؤ روشن تھا۔ (جو ظاہر ہے اس جوان طناز کا اپنا ہی اہتمام ہو گا) میں پانی میں کھڑا ہوا تو یہی سوچتا رہا۔
جدا ہیں آج اگر ہم تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
میں نے اپنے جملہ ذہنی قویٰ کو اسالاؤ پر مرکوز کئے رکھا تاآنکہ اسی ایک دھن میں اس شب سیاہ کی سحر کر ڈالی۔
ہم بھی کہ، ماہر نفسیات جوان تو نہ تھے ایک مشکل سے ضرور دوچار تھے، وہی مشکل جس کا خلاصہ جناب فیضؔ نے اس طرح تیار کیا ہے؎
زندگی کیا کسی ملس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی دور کے پیوند لگے جاتے ہیں
ہماری زندگی ملازمانہجبر کی قبا ضرور تھی لیکن ادھر بھی معاملہ
پائے گدالنگ نیست
والا تھا بلکہ اس سے بھی کچھ اگیرے کہ ہمیں اپنے دوبارہ مقام مذکورہ پر تعینات ہونے پر اکثر وہی کہانی یاد آجاتی کرتی جو کچھ یوں ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی تلانامی شخص نے کسی جاٹ سے برسوں پرانے قرض کی کچھ رقم وصول کرنی تھی لیکن جب بھی وہ اس غرض کو وہاں جاتا جاٹ کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کے اس ٹال دیتا۔ ایک بارتُلاّ عزمِ صمیم کے ساتھ جاٹ کے گھر پہنچا تو جاٹ نے اپنا ترٹ سنبھالا اور اسے تڑا تڑا اپنی بیوی کے (ترٹ: خوفناک آواز پیدا کرنے والا نباتاتی رسّہ جسے بیل وغیرہ ہانکنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔) تن بدن پر برسانا شروع کر دیا یہ بھگدڑ مچی دیکھی تو تُلاّ وہاں سے غائب ہو گیا جس پر طوفان وقت سے کچھ پہلے ہی تھم گیا، جاٹ کی بیوی اپنے چُلہانے پر پہنچی تو جاٹ جوشِ جذبات میں پکار اٹھا۔
میں وی ہیساں جٹ
مارے کندھاں تے پئے ترّٹ
ماریا میں وی کوئی نئیں
(یعنی میں بھی جاٹ تھا میں اپنا ترّٹ محض دیوار پرمارتا رہا میں نے تمہاری پٹائی تو ہیں کی ہے)
جس کے جواب میں اس کی بیوی کہنے لگی
میں وی ہیساں رانی
سُکے سنگھ پئی اڑرانی
روئی میں وی کوئی ناں
(یعنی میں بھی اس گھر کی رانی ہوں اور جھوٹ مُوٹ کا واویلا کرتی رہی ہوں، میری آنکھوں سے بھی کوئی آنسو پھوٹنے نہیں پایا۔)
میاں بیوی کے ان اعلانات مسُرت کی گونج ابھی صحن میں باقی تھی کہ اندر سے آواز آئی۔
ناں ایں میرا تُلاّ
کر کے بیٹھا واں میں جُلاّ
گیا میں وی کوئی ناں
(میرا نام بھی تُلاّ ہے اور اپنے آپ کو لحاف میں چھپائے بیٹھا ہوں، ٹلنے کا نام میں بھی نہیں لوں گا۔)
چنانچہ اب کے تُلّے جیسے عزم کے ساتھ ہم دوبارہ اپنی منزل کی جستجو میں لگ گئے، سب سے پہلے تو ہم نے جیسے تیسے ہوا امتحان میں شرکت کی محکمانہ اجزت حاصل کی، یہ اجازت کیسے حاصل ہوئی اس کا طریقِ کار (درآں حالے کہ ہیڈماسٹر صاحب ہم سے پہلے سے کہیں زیادہ خفا تھے)کچھ اور بھی پیچیدہ ہو گیا لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری۔
مطلقہ عورتوں کی عدت کا عرصہ تو غالباً چار سوا چار مہینے ہوتا ہے لیکن دوسرے بڑے امتحان تک ہمارا یہ عرصے دو سال نکلا چنانچہ یہ دو سال گزر چکے تو آئندہ امتحان کا رول نمبر ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ امتحان کے دن قریب آئے تو کھیڑوں کی بارات بھی ساتھ ہی آدھمکی اور رانجھا بے چارہ دیکھتا ہی رہ گیا کہ وہ اپنے ماتھے سے اپنے چاک ہونے کا ٹیکہ کیسے اتارے کہ میدانِ عشق میں…… منفی طاقتیں ہمیشہ عشاق کے درپے رہی ہیں۔
ہیڈماسٹر صاحب نے ہمیں بیس دنوں پر پھیلی ہوئی ڈیٹ شیٹ کے مدِمقابل چھٹی دینے سے انکار کر دیا، ان کا یہ حملہ اگرچہ متوقع تھا لیکن اس کے حل کے متعلق ہم نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ اس لئے کہ معاملہ محکمے سے ہمارے اغوا کا نہ تھا بلکہ یہ رخصتی باقاعدہ طور پر ہونا قرار پائی تھی پھربھی اگر یہ صورتحال پیدا ہوئی تو اس موقع پر اعتدال کی راہ اپنانا ہی بقول دانایاں مفید مطلب ہو سکتا تھا سو ہم نے بھی یہی راہ اپنائی بقول ریاض
عادت سی ہے اب نشہ نہ ہے کیف
پانی نہ پیا شراب پی لی
اور سات دن کی رُخصت اتفاقیہ بحساب ایک ایک دن حاصل کرتے رہے جو کسی انداز سے بھی رد نہ کی جا سکتی تھی اور جُوں توں کر کے یہ امتحان دے مارا۔ ہم نے یہ امتحان کیسے دیا، یہ داستان تو خاصی طویل ہے لیکن اگر بالاختصار کہا جائے تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں ان دنوں بھی پہلے امتحان کی طرح بیک وقت دوعارضے لاحق تھے، ایک عارضے تو وہی اختلاج قلب والا اور دوسرا وہ جو ذرا زیادہ عزیز تھا۔ اور وہ تھا سربراہ ادارہ کی محبت و موانست کا عارضہ، ان عارضوں کے باوجود ہم ایک دن سکول میں پڑھاتے سہ پہر کی گاڑی سے راولپنڈی کا رخ کرتے درمیان میں ایک جنکشن پڑتا تھا جہاں درمیانی شب اپنے ایک آشنا کے پاس (جو محکمہ ریلوے میں ملازم تھے اور جن سے ہماری نسبت شاعرانہ تعلقات کے علاوہ عارضہ قلب مضطرب کے باعث بھی تھی) گزارتے اور ایک دوسرے کی نبض کی دھڑکنیں گن گن کے اس بیماری کی شدت کا اندازہ کرتے رہتے۔ صبح دم بس پکڑتے اور پرچہ شروع ہونے سے پہلے جائے امتحان پر پہنچ جاتے، جُون کے مہینے کا شکاٹیں ڈالتا ہوا موسم اس پر سفر کی تکاناور اس تکان پر کام و دہن می ں تلخیٔ حالات کا زہر… ہمارا حال ہر لحاظسے پتلا تھا۔ تاہم ہم نے اپنے امتحان کا حال کسی بھی مرحلے پر پتلا نہ ہونے دیا۔
پرچہ ہو چکتا تو ہم وہ ٹرین پکڑتے جو ہمیں سیدھا پھر اپنی جائے ملازمت پر لے جاتی، درمیان کے ایک دو دن سکول میں حاضی دیتے اور پھر وہی دوڑ لگاتے جس سے باز رہنا ہمیں کسی طرح منظور نہ تھا ان دِقتوں اور فنی خرابیوں کے باوجود جب امتحان کا نتیجہ نکلا اور ہم کسی قدر باعزّت طور پر کامیاب قرار پائے تو اس کامیابی کو ہمارے نزدیک کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا؎
یہ فیصلہ بھی مرے دستِ باکمال کا تھا
جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا
جواب دیں