تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

ہے

دل جیسے گلے میں آ گیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 204
کیا خوف معاً یہ چھا گیا ہے
دل جیسے گلے میں آ گیا ہے
ماجد صدیقی

کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
ہوا وہ جبر دبانے کو مدعّا اب کے
کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے
وہ کیسا حبس تھا مہریں لبوں پہ تھیں جس سے
یہ کیسا شور ہے در در سے جو اُٹھا ہے اب کے
دَہن دَہن کی کماں اِس طرح تنی نہ کبھی،
بچا نہ تیر کوئی جو نہیں چلا اَب کے
شجر کے ہاتھ سے سایہ تلک کھسکنے لگا
وہ سنگ بارئِ طفلاں کی ہے فضا اب کے
خلاف ظلم سبھی کاوشیں بجا لیکن
سرِ غرور تو کچھ اور بھی اُٹھا اب کے
کوئی یہ وقت سے پوچھے کہ آخرش کیونکر
ہے آبِ نیل تلک بھی رُکا کھڑا اب کے
لبوں پہ خوف سے اِک تھرتھری سی ہے ماجدؔ
دبک گیا ہے کہیں کلمۂ دُعا اَب کے
ماجد صدیقی

ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
چھلکوں جو ساحلوں سے یہ حاجت نہیں مجھے
ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے
یا شاخِ سبز یا میں رہوں بن کے رزقِ خاک
منظور اور کوئی بھی صُورت نہیں مجھے
رشتہ ہے استوار شجر سے ابھی مرا
کچھ تُندئ ہوا سے شکایت نہیں مجھے
ہوں مشتِ خاک، ابرِ گریزاں نہیں ہوں میں
خلوت گزیں ہوں نشّۂ نخوت نہیں مجھے
ہمرہ بجائے سایہ ابھی ابر سر پہ ہے
صحرا کی وسعتوں سے بھی وحشت نہیں ہے مجھے
کچھ اِس پہ اور بھی تو یقیناً ہے مستزاد
اِک عجز ہی تو باعثِ عزّت نہیں مجھے
ماجدؔ ہوں موج، مجھ میں تموّج ضرور ہے
حاشا کسی سے کوئی عداوت نہیں مجھے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑