تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

ہشیار

غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
گھر گھر رسماً زر کے ہیں انبار یہاں
غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں
رکھیں گرم فقط جیبیں کارندوں کی
ٹیکس بچائیں کیا کیا ٹیکس گزار یہاں
نرخ بڑھائیں وزن کریں کم چیزوں کے
ہوتا ہے یوں دُگنا کاروبار یہاں
بندشِ آب و ضیا پر ہر سو ہنگامے
سانس تلک لینا بھی ہوا دشوار یہاں
نسل بڑھائیں پودا اک بھی لگا نہ سکیں
بس اِک حد تک ہیں سارے ہُشیار یہاں
وہ جو ملا تھا وہ تو گنوا بیٹھے ہیں ہم
اُس سا ملے اب، کب دُرّ شہوار یہاں
ماجد جو بھی کہے کچھ کہہ دے سوتے میں
تجھ سی بہم کس کو چشمِ بیدار یہاں
ماجد صدیقی

کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
ہمارے عہد میں کب دیدۂ بیدار غالب ہے
کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے
بچے بھی گر بھنور سے تو اُسے ساحل نہ اپنائے
یہاں ہر ناتواں پر ایک سا آزار، غالب ہے
پہنچ کر عمر کو بھی یوں ہوا محصورِ نااہلاں
کہ جیسے شیرِ نر بھی دشت پر، ناچار غالب ہے
وُہی جو سانپ کی یورش سے اُٹھے آشیانوں میں
سماعت در سماعت، بس وُہی چہکار غالب ہے
بنو ماجد نہ غالبؔ، ذوق بن جاؤ جو ممکن ہو
کہ دُنیائے ہُنر میں قربتِ دربار غالب ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑