تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

گہنائے

پھول کھلیں تو کیوں تُو اُنہیں جلائے یارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 213
چہروں کا دُھندلانا تجھ کو بھائے یارا
پھول کھلیں تو کیوں تُو اُنہیں جلائے یارا
وہ جو تیری دِید کو ترسیں، اُنہیں رُلانے
ابر و ہوا کے پیچھے کیوں چھپ جائے یارا
وصل سے کترائے ہے ہجر کی آنچ دلائے
کتنے ستم ہیں تُو جو نت دُہرائے یارا
وہ کہ راہ میں تیری بِچھ بِچھ جاتے ہیں جو
چالوں کا جادُو کیوں اُن پہ جگائے یارا
جانیں جائیں پر تُو تخت بچا لے اپنا
خلقِ خدا کو کس کس طَور نچائے یارا
اُن ہاتھوں کو جو فریاد بکف اُٹھتے ہیں
آہنی ہتھکڑیاں کیا کیا پہنائے یارا
ماجِد تیرا سخن ہے تیرا سدا کا جوبن
تُو چندا سا کاہے کو گہنائے یارا
ماجد صدیقی

کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 132
موسم کی جانب سے کیوں الٹا پیغام ہی آئے
کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے
گھر گھر بھی اک آمر خود کو اتّم ہی کہلائے
اپنے کہے پر اوّل و آخر کبھی نہ جو شرمائے
آتے جاتے موسموں سے میں کیوں یہ بات نہ پوچھوں
انسانی چہرے کا چاند ہی نت نت کیوں گہنائے
کہتے ہیں پیڑوں کے پھل پیڑوں سے اچّھے لاگیں
بچّوں بچّیوں کی اولاد بھی یونہی من کو بھائے
بیٹا بیٹا ماں کے جوتے تک بھی سر پر رکھے
پر اپنے بچّوں کی ماں کجو نت نیچا دکھلائے
دھرمی دھرمی چرچا اپنے دھرم کا کبھی نہ بھولے
دوسرے دھرم کے لوگوں کو لیکن جھوٹا ٹھہرائے
ماجد بات کو گنجلک صورت بھی تو کبھی دیا کر
حالی سی کیا سادہ نثری غزلیں سامنے لائے
ماجد صدیقی

بار بار جو تجھ پر ’’جِندڑی” وارے یارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
رُوگردانی اُس سے کیوں اپنائے یارا
بار بار جو تجھ پر ’’جِندڑی” وارے یارا
وہ کہ جو تری قرابت چاہیں، اُنہیں رُلانے
ابر و ہوا کے پیچھے کیوں چھپ جائے یارا
وہ کہ ہیں پہلے ہی سے اسیر ترے جادُو کے
چالوں کا جادُو کیوں اُن پہ جگائے یارا
وصل سے کترائے ہے ہجر کی آنچ دلائے
کتنے ستم ہیں تُو جو نت دُہرائے یارا
جانیں جائیں پر تُو تخت بچا لے اپنا
خلقِ خدا کو کس کس طَور نچائے یارا
اُن ہاتھوں کو جو فریاد بکف اُٹھتے ہیں
آہنی ہتھکڑیاں کیا کیا پہنائے یارا
ماجِد تیرا سخن ہے تیرا سدا کا جوبن
تُو چندا سا کاہے کو گہنائے یارا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑