تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

کھائے

چٹی چمڑی والے پھر کیوں ہمیں سدھانے آئے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
کالا پانی بھیجنے والے پھر کیوں جھانکنے آئے ہیں
چٹی چمڑی والے پھر کیوں ہمیں سدھانے آئے ہیں
کتنی نسلیں، کتنے رقبے گروی ٹھہرے اُن کے عوض
نام جو اپنوں کے ہیں پر، وہ باہر کے سرمائے ہیں
جنگ زدہ خطّوں کے اندر کے احوال بتائے کون؟
کن کن دوشیزاؤں نے جبراً پہلو گرمائے ہیں
تند سخن سنتے سنتے حیلہ یہ بدن نے کیا شاید
عمرِ اخیر تلک پہنچے تو ہم بہرے کہلائے ہیں
ایسے بادل کھیتوں، بگھیاؤں پر کیسے برسیں گے
یہ جوگَرد بگولے صحراؤں پر آ کر چھائے ہیں
نقش نجانے کیا کیا دل کے سب اوراق پہ چھوڑ گئے
وہ چہرے جو گاہے گاہے اپنے من کو بھائے ہیں
رِیت روایت چھوڑ کے جنکا ذکر ہے غیروں تک نے کیا
زخم نہ کیا کیااپنوں تک سے ماجد ہم نے کھائے ہیں
دوہزاردس کے دوران ایک سیاسی فیصلے پر
ماجد صدیقی

حرف در حرف نئے پُھول کِھلائے ہم نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
گُن سخن میں وُہ رُخِ یار کے لائے ہم نے
حرف در حرف نئے پُھول کِھلائے ہم نے
نزد اِن کے بھی کسی شہ کی سواری اُترے
اِس گماں پر بھی در و بام سجائے ہم نے
جن کی تنویر میں کام آیا ہم ایسوں کا لہو
آنگنوں آنگنوں وُہ دِیپ جلائے ہم نے
ہاں رسا ہونے نہ پائی کوئی فریاد و دُعا
عرش کے پائے بھی کیا کیا نہ ہِلائے ہم نے
جھڑکیوں سے کہیں،افیون سے وعدوں کی کہیں
شاہ کہتے کہ ’’یُوں لوگ سُلائے ہم نے’‘
عقل سے شکل سے جِن جِن کی، نحوست ٹپکے
ایسے بُودم بھی سر آنکھوں پہ بِٹھائے ہم نے
کسی انساں کی دولتّی سے لگیں جو ماجِد
جانتے بُوجھتے وُہ زخم بھی کھائے ہم نے
ماجد صدیقی

انگناں اُترا پُورا چندا آتی شب گھٹ جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
آج کے دن کا لطف اُٹھا لے، آج نہیں پِھر آئے گا
انگناں اُترا پُورا چندا آتی شب گھٹ جائے گا
انساں گِدھ یا زاغ نہیں ہے اُس سے مرے کب اُس کا ضمیر
چال چلے یا ظلم کرے وُہ،آخر کو پچتائے گا
اچّھا کر اور اچّھا کرکے،اُس کے انت کی فکر نہ کر
خَیر کے بِیج سے دیکھنا اِک دِن پَودا اُگ ہی آئے گا
ماجِداپنے سُخن کی ضَو پرپڑتے چھینٹوں کو یہ بتا
چاند پہ جو بھی تُھوکے گا آخر کو منہ کی کھائے گا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑