تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

چھایا

جیسا جُوتا شاہ نے راج کے انت میں کھایا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
ایسافیض کیے کا اپنے کس نے پایا
جیسا جُوتا شاہ نے راج کے انت میں کھایا
جِس زورآور کا بھی ہُوا ہے جُرم نمایاں
وقت نے اُس کو ہے درجہ ہیرو کا دلایا
اُس سے پوچھیے تازہ تازہ جس کو ملی ہے
کیا ہے سجناں! لَوٹ کے آئی ’صحت مایا،
خود تن جائے دھوپوں جلنے سے جو بچائے
ہاں ناپید لگے ہے اُس چھاتا کی چھایا
بعد اُس کے بھی وہ تو درخشاں ہے ہر جانب
جِس عادل نے آمر سے پنجہ تھا لڑایا
ایسا گنجلک بھی کیوں؟ نظمِ عدالت ماجِد!
ہر ملزم نے بعداِک عمر کے عدل ہے پایا
ماجد صدیقی

عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
مکتبِ تخلیقِ فن میں حال یہ اپنا ہوا
عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا
بہرِ ردِ عذر ہے بادِ خنک لایا ضرور
ابر کشتِ خشک تک پہنچا ہے پر برسا ہُوا
سرو سا اُس کا سراپا ہے الف اظہار کا
ہے جبینِ خامشی پر جو مری لکھا ہُوا
رنگ میں ڈوبا ہوا ہر دائرہ اُس جسم کا
پیرہن خوشبو کا ہے ہر شاخ نے پہنا ہوا
ہر نظر شاخِ سخن ہے پھول پتّوں سے لدی
ہے خمارِ آرزُو کچھ اِس طرح چھایا ہُوا
تجھ پہ بھی پڑنے کو ہے ماجدؔ نگاہِ انتخاب
ہے ترا ہر لفظ بھی اُس جسم سا ترشا ہُوا
ماجد صدیقی

ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
بن کے ابرِ رواں کا سایا وُہ
ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ
اُڑنے والا ہوا پہ خُوشبو سا
دیکھتے ہی لگا پرایا وُہ
جبر میں، لطف میں، تغافل میں
کیا ادا ہے نہ جس میں بھایا وُہ
جیسے پانی میں رنگ گھُل جائے
میرے خوابوں میں یُوں سمایا وُہ
مَیں کہ تھا اِک شجر تمّنا کا
برگ بن بن کے مجھ پہ چھایا وُہ
تیرتا ہے نظر میں شبنم سا
صبحدم نُور میں نہایا وُہ
آزمانے ہماری جاں ماجدؔ
کرب کیا کیا نہ ساتھ لایا وُہ
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑