تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

چمٹ

لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 121
لائے زبان پر تو لبوں میں سمٹ گیا
لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا
طوفاں سے قبل جس پہ رہا برگِ سبز سا
چھُو کر وہ شاخ آج پرندہ پلٹ گیا
غافل ہمارے وار سے نکلا بس اِس قدر
پٹنے لگا تو سانپ چھڑی سے لپٹ گیا
جھپٹا تو جیسے ہم تھے سرنگوں کے درمیاں
دشمن ہماری رہ سے بظاہر تھا ہٹ گیا
ہوتا اُنہیں شکستِ تمنّا کا رنج کیا
بچّے کے ہاتھ میں تھا غبارہ سو پھٹ گیا
ماجدؔ خلا نورد وُہ سّچائیوں کا ہے
اپنی زمیں سے رابطہ جس کا ہو کٹ گیا
ماجد صدیقی

آہن صفت درخت بھی، ریشوں میں بٹ گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
آروں سے موج موج کے، کیا کیا نہ کٹ گئے
آہن صفت درخت بھی، ریشوں میں بٹ گئے
دیکھا ہمیں قفس میں، تو پوچھی نہ خیر بھی
جھونکے مہک کے آئے اور آ کر، پلٹ گئے
مُٹھی میں بند جیسے، مہاجن کی سیم و زر
کھیتوں کے حق میں ابر، کچھ ایسے سمٹ گئے
سیلاب نے جب اپنے قدم، تیز کر لئے
بادل بھی آسمان سے، اِتنے میں چھٹ گئے
جتنے ہرے شجر تھے، لرزنے لگے تمام
خاشاک تھے کہ سامنے دریا کے ڈٹ گئے
جانے نہ دیں گے، رزق کے بن باس پر کبھی
بچّے کچھ ایسے باپ سے ماجدؔ، چمٹ گئے
ماجد صدیقی

چُوزے ہوں جیسے ماں کے پروں میں سمٹ گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
یوں لوگ اب کے جادۂ گرگاں سے ہٹ گئے
چُوزے ہوں جیسے ماں کے پروں میں سمٹ گئے
پنچھی شکار ہو کے نشیمن میں آ گرا
اور خواب، عافیت کے بدن سے چمٹ گئے
کھانے لگا فضا میں لہو ان کا بازیاں
بِلّی کے سامنے تھے کبوتر جو ڈٹ گئے
مجروح کب ہوئے ہیں نہتّوں سے اہلِ تیغ
کب یوں ہوا کہ دانت زبانوں سے کٹ گئے
جھاڑا نہیں کسی نے اِنہیں حادثہ یہ ہے
دل آئنے تھے گردِ زمانہ سے اٹ گئے
ماجد ہر آن جیسے اذّیت پہ ہوں تُلے
کانٹے لباس سے ہیں کچھ ایسے چمٹ گئے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑