تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

پھٹنے

کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 116
یہ گردِ ضعف ہے کیا؟رُوح جس سے اَٹنے لگی
کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی
بہ نامِ تفرقہ کیا کیا سرنگ نفرت کی
نہیں ہے گھر میں نہتّوں کے جا کے پھٹنے لگی
تو کیا ہمِیں میں کوئی فرق ہے کہ جس کے سبب
ہماری ناؤ ہی ہرسیل میں الٹنے لگی
یہ ٹَڈی دَل سا نجانے کہاں سے آ دھمکا
علالتوں میں ہے کیوں فصلِ جان بٹنے لگی
اگرچہ کرب نے جاں تک نچوڑ لی لیکن
گُماں کی دُھند بہت کچھ ہے اِس سے چھٹنے لگی
کنارِ دیدہ و لب سے، مرُورِ عمر کے ساتھ
جو چاشنی بھی تھی مانندِ موج ہٹنے لگی
پتنگ عزم کی ماجِد ہے ڈانواں ڈول سی کیوں
لگے ہے ڈور کہیں درمیاں سے کٹنے لگی
ماجد صدیقی

جتنے امکاں تھے راحت کے گھٹنے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
دن کچھ اِس طور سے اب کے کٹنے لگے
جتنے امکاں تھے راحت کے گھٹنے لگے
تیز ہیں جب سے ناخن نئی سوچ کے
ایک اک تہ سکوں کی الُٹنے لگے
غیر کی چال سے رن پڑا ہے یہ کیا
بھائیوں ہی سے بھائی نمٹنے لگے
جھڑ کے بھی شاخ سے جانے کس حرص میں
خشک پتے ہوا سے لپٹنے لگے
بول اعدا کے ماجدؔ وہ جانے تھے کیا
ذہن میں جو سرنگوں سے پھٹنے لگے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑