تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

نہیں

مشکلوں سے تہِ نگیں کی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 217
ہم نے، جو مِلک اُس حسیں کی ہے
مشکلوں سے تہِ نگیں کی ہے
خُوں جلائیں کہ جاں سے جائیں ہم
بات سب”کسبِ آفریں’ کی ہے
نسل اپنی بھی کھوج لی ہم نے
جس کو جنت کہیں’ وہیں کی ہے
ہاں ہم آداب اِس کے جانتے ہیں
’’تیری صورت جو دلنشیں کی ہے‘‘
محو سُن کے سماعتوں سے جو ہو
ہم نے وہ شاعری نہیں کی ہے
دیکھنی ہو جو اُس کی صنّاعی
آب میں برقِ آتشیں کی ہے
آسماں تک گئی جو آہوں میں
فصل ماجِدوہ اس زمیں کی ہے
ماجد صدیقی

میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
تسکینِ قلب جس سی، کسی میں کہیں نہیں
میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں
ہاں ہاں رہے وہ میری رگِ جاں سے بھی قریب
ہے کو نسا پہر کہ وہ دل کے قریں نہیں
اُس کے لبوں سے لب جو ہٹیں تو کُھلے یہ بات
اُس کے لبوں سی مَے بھی نہیں، انگبیں نہیں
ابر وہیں اُس کے، آنکھ کا اُس کی خُمار الگ
صدرنگ اُس کی شکل سا کوئی نگیں نہیں
ہرشب ہیں جس کے رُوئے منوّر کے رنگ اور
جی! چاند تک بھی اُس سا درخشاں جبیں نہیں
اُس کی قرابتوں کے مضامیں جُدا جُدا
ہاں سچ ہے اُس سی کوئی غزل کی زمیں نہیں
ماجد ہیں جس کی خلوتیں تک مجھ پہ واشگاف
اُس جانِ جاں سے آنکھ چُراؤں نہیں نہیں
ماجد صدیقی

ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
چھلکوں جو ساحلوں سے یہ حاجت نہیں مجھے
ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے
یا شاخِ سبز یا میں رہوں بن کے رزقِ خاک
منظور اور کوئی بھی صُورت نہیں مجھے
رشتہ ہے استوار شجر سے ابھی مرا
کچھ تُندئ ہوا سے شکایت نہیں مجھے
ہوں مشتِ خاک، ابرِ گریزاں نہیں ہوں میں
خلوت گزیں ہوں نشّۂ نخوت نہیں مجھے
ہمرہ بجائے سایہ ابھی ابر سر پہ ہے
صحرا کی وسعتوں سے بھی وحشت نہیں ہے مجھے
کچھ اِس پہ اور بھی تو یقیناً ہے مستزاد
اِک عجز ہی تو باعثِ عزّت نہیں مجھے
ماجدؔ ہوں موج، مجھ میں تموّج ضرور ہے
حاشا کسی سے کوئی عداوت نہیں مجھے
ماجد صدیقی

دیکھنے سے جن کے مائیں مر گئیں اِس شہر میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
عصمتوں کی دھجّیاں کیا کیا اُڑیں اِس شہر میں
دیکھنے سے جن کے مائیں مر گئیں اِس شہر میں
کون کہہ سکتا ہے کس کی استراحت کے سبب
جاگتے جسموں میں جانیں تک جلیں اِس شہر میں
اوٹ میں نامنصفی کی جانے کیا کیا چاہتیں
موت کی آغوش میں سوئی ملیں اِس شہر میں
اِس قدر ارزاں تو یہ جنسِ گراں دیکھی نہیں
سنگ کے بھاؤ تُلے جتنے نگیں اِس شہر میں
ضرب سے حرفِ گراں کی جابجا بکھری ملیں
دل کے آئینوں کی کیا کیا کرچیاں اِس شہر میں
دیکھنے میں تو نظر آتی ہیں سب پلکیں کھُلی
جاگتی اِک آنکھ بھی لیکن نہیں اِس شہر میں
وحشتوں کے جانے کن کن ناخنوں سے کُو بہ کُو
مینڈھیاں ماجدؔ حیاؤں کی کھُلیں اِس شہر میں
ماجد صدیقی

ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
ذرّوں سے پہچان ہے ضو کی، ماہِ مبیں کوئی اور
ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور
بال یہ پُوچھے منکرِ یزداں ہیں جو ہیں اور کثیر
اُنکے نصیبوں میں بھی ہے کیا فردوسِ بریں کوئی اور
آتی جاتی سانسوں کا بھی رکھ نہ سکیں جو حساب
دشمن ہیں تو ایک ہمِیں اپنے ہیں ،نہیں کوئی اور
چاند کو بس گھٹتا ہی دیکھیں اور رہیں رنجور
اِس دنیا میں شاید ہی ہو ہم سا حزیں کوئی اور
دل جس کو دینا تھا دیا اور اب ہے کہاں یہ تاب
دل کی لگن میں دیکھ لیا ہے جیسے حسیں کوئی اور
ہم ذی جوہر ہیں، یہ گماں ماجدؔ تھا گمانِ محض
اوج کی انگوٹھی میں سجا ہے دیکھ! نگیں کوئی اور
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑