تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

نڈھال

مرے مدّعا و بیان میں ، ہو ملائمت تری چال سی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 113
کوئی فاختائی سی نظم ہو کوئی اِک غزل ہو غزال سی
مرے مدّعا و بیان میں ، ہو ملائمت تری چال سی
مری کیفیات کے صحن میں، ہے کہاں سے آئی ہے یہ ذہن میں
مرے ارد گرد تنی ہوئی یہ جو موجِ خوف ہے جال سی
کوئی گھر بغیرِ نگاہ باں، ہو اجاڑ جیسے سر جہاں
لگے آس پاس کی خلق کیوں؟ مجھے لحظہ لحظہ نڈھال سی
کھلی آنکھ تب سے یہ سوچتے، گئی بِیت عمرِ طویل بھی
کہ نفس نفس میں ہے کیوں مرے؟ یہ گھڑی گھڑی ہے جو سال سی
ہوئیں التجائیں نہ بارور، کوئی چاہ ٹھہری نہ کارگر
نہ ہوئیں دعائیں وہ باثمر، تھیں جواختیار میں ڈھال سی
مرا تن بدن مرا عکس ہے، مری آنکھ ہے مرا آئنہ
وہی عمر اُس کی بَتائے ہے، ہے تنِ شجر پہ جو چھال سی
ترے لفظ لفظ میں ہے کھنک، ترے مکھ پہ فکر کی ہے دھنک
تری لَے بھی ماجِدِ خوش گلو، ہے رفیع، اوجِ کمال سی
ماجد صدیقی

یُوں تو ہو گا یہ جی کچھ اور نڈھال

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
ہو نہ محتاجِ پرسشِ احوال
یُوں تو ہو گا یہ جی کچھ اور نڈھال
وہ ترا بام ہو کہ ہو سرِ دار
پستیوں سے مجھے کہیں تو اُچھال
گُل بہ آغوش ہیں مرے ہی لیے
یہ شب و روز یہ حسیں مہ و سال
دن ترے پیار کا اُجالا ہے
شب ترے عارضوں کا مدّھم خال
مَیں مقّید ہوں اپنی سوچوں کا
بُن لیا مَیں نے شش جہت اِک جال
بے رُخی کی تو آپ ہی نے کی
آپ سے کچھ نہ تھا ہمیں تو ملال
ہے اسی میں تری شفا ماجدؔ
لکھ غزل اور اِسے گلے میں ڈال
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑