تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

مکر

دریا میں جتنا زور تھا پل میں اُتر گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
زد پر جب اُس کی میں حدِ جاں سے گزر گیا
دریا میں جتنا زور تھا پل میں اُتر گیا
دیکھی جب اپنی ذات پہ آتی ذرا سی آنچ
وہ بدقماش اپنے کہے سے مُکر گیا
آخر کو کھینچ لایا وہ سورج سرِ افق
جو جیش جگنوؤں کا بسوئے سحر گیا
خود اُس کا اَوج اُس کے توازن کو لے اڑا
نکلا ذرا جو حد سے تو سمجھو شجر گیا
جس کو بقا کا راز بتانے گیا تھا میں
سائل سمجھ کے وہ مری دستک سے ڈر گیا
کربِ دروں سے، اشکِ فراواں کے فیض سے
چہرہ کچھ اب کے اور بھی ماجد نکھر گیا
ماجد صدیقی

یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
جو مجتمع ہو رہا ہوں پل پل مجھے بتا میں بکھر نہ جاؤں
یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں
یہ ایک لمحہ کہ جان لُوں تو اِسی میں ایٹم سی قوّتیں ہیں
مجھے ہے جینا اگر تو پہنائیوں میں اِس کی اُتر نہ جاؤں
سیاہ راتیں چٹان بھی ہیں تو میرے قدموں کی خاک ہوں گی
یہ کس طرح ہو کہ جستجو میں تری، سحر تا سحر نہ جاؤں
غمِ زمانہ تری حقیقت سے چشم پوشی بڑی خطا ہے
مگر مجھے وہم ہے کہ ہستی سے ہی تری میں مکر نہ جاؤں
چمن کے گُلہائے ناز پرور! نہ مجھ مسافر کا حال پوچھو
یہ بارشِ گرد ہو نہ درپے تو میں بھی تم سا نکھر نہ جاؤں
دلوں میں یاروں کے وسوسے ہیں تو میں بھی کیوں دل کو دشت کر لوں
گمان تک بھی کروں جو ایسا تو جاں سے ماجدؔ گزر نہ جاؤں
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑