تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

لٹا

دل نے پتّوں سی ہوا دی کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
جاں بدن میں ہی جلا دی کیا کیا
دل نے پتّوں سی ہوا دی کیا کیا
راہ چلتوں کی توجّہ پانے
زر شگوفوں نے لٹا دی کیا کیا
دیکھ کر پوتیوں پوتوں کی روش
رنج گِنوائے ہے دادی کیا کیا
روز خبروں میں دکھائی جائے
گونجتی مرگِ ارادی کیا کیا
کیا ہُوا ہے ابھی کیا ہونا ہے
وقت کرتا ہے منادی کیا کیا
ابر چھایا تو نشہ سا لاگا
اور خبر رُت نے اُڑا دی کیا کیا
ماجد صدیقی

اور کبھی بندِ قبا دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
غنچہ پس شاخ کھِلا دیکھنا
اور کبھی بندِ قبا دیکھنا
دیکھنا اُس کو ذرا محوِ کلام
اوج پہ ہے رقصِ صبا دیکھنا
پھر یہ کہاں لطفِ ہجومِ نگاہ
ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا
چھیننا مجھ سے نہ یہ آب بقا
دیکھنا ہاں نامِ خدا دیکھنا
دل کہ ترے لطف سے آباد تھا
شہرِ تمّنا یہ لُٹا دیکھنا
خار ہیں اب جس پہ اُسی راہ پر
فرش گلوں کا بھی بچھا دیکھنا
چاہئے ماجدؔ سرِ شاخِ نظر
روز نیا پھول کھِلا دیکھنا
ماجد صدیقی

آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
در کاہے کو کُھلا ہے اِتنی دیر گئے
آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے؟
کس سے کون خفا ہے اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ کی آس کا تارا ٹُوٹا ہے
کس کا چین لُٹا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں، گُھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے
کس کو بے کل دیکھ کے ماجدؔ چندا نے
آنگن میں جھانکا ہے اِتنی دیر گئے
ماجد صدیقی

پَو پھٹے چاند سے اُس کا جوبن لُٹا اور میں کھو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
وقت کی شاخ پر پات پیلا پڑا اور میں کھو گیا
پَو پھٹے چاند سے اُس کا جوبن لُٹا اور میں کھو گیا
پھر نجانے معطل رہے کب تلک میرے اعصاب تک
ہاتھ جابر کا شہ رگ کی جانب بڑھا اور میں کھو گیا
آسماں پر کماں بن کے قوسِ قزح دُور ہنستی رہی
وار جو بھی ہُوا پاس ہی سے ہُوا اور میں کھو گیا
عمر کیا کیا نہیں لڑکیوں کی ڈھلی پاس ماں باپ کے
خوں کے آنسو بنے اُن کا رنگ حنا اور میں کھو گیا
میں کہ ماجد ہوں اہلِ ہنر، اہلِ مکر و ریا کیوں نہیں
بس یہ نکتہ مجھے بے زباں کر گیا اور میں کھو گیا
ماجد صدیقی

دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کس نے یاد کیا ہے اتنی دیر گئے
دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے
کس کا چین لٹا ہے اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ سے آس کا تارا ٹوٹا ہے
کس پر کون کھُلا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں گھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے
دیکھ کے ماجدؔ چندا نے بیدار کسے
آنگن میں جھانکا ہے اِتنی دیر گئے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑