تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

لرزاں

اے شہِ عاجز! وقارِ خلق ارزاں اور کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
چادریں نُچتی ہیں جن کی اُن کو عریاں اور کر
اے شہِ عاجز! وقارِ خلق ارزاں اور کر
اپنی قامت ناپ اُن کے ساتھ بے وقعت ہیں جو
جو پریشاں حال ہیں اُن کو پریشاں اور کر
کر نمایاں اور بھی ہر دستِ حاجت مند کو
ضعف سے لرزاں ہیں جو وہ ہاتھ لرزاں اور کر
مایۂ خلقت پہ حاتم طائیاں اپنی دِکھا
داغ ناداری کے ماتھوں پر نمایاں اور کر
چھین لے فریاد کی نم بھی لبوں کی شاخ سے
نیم جاں ہیں جس قدر تُو اُن کو بے جاں اور کر
گھیر کر لا ریوڑوں کو جانب گُرگانِ دشت
مشکلیں اُنکی جو ذی وحشت ہیں آساں اور کر
جتنے ماجد ہیں یہاں گریہ کناں اُن پر برس
چیختے ہرنوں کو جنگل میں ہراساں اور کر
ماجد صدیقی

منظر وہ ابھی تم نے مری جاں! نہیں دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 155
ہوتے ہیں بدن کیسے گلستاں، نہیں دیکھا
منظر وہ ابھی تم نے مری جاں! نہیں دیکھا
ہم صبح ومساجان بہ لب حبسِ چمن سے
اور ہم پہ عتاب اُن کو کہ زنداں نہیں دیکھا
جس شاخ کو تھی راس نہ جنبش بھی ہَوا کی
پھل جب سے لُٹے پھر اُسے لرزاں نہیں دیکھا
چھلکا ہے جو آنکھوں سے شبِ جور میں اب کے
ایسا تو کبھی رنجِ فراواں نہیں دیکھا
مدّاح وہی اُس کے سکوں کا ہے کہ جس نے
مہتاب سرِغرب پر افشاں نہیں دیکھا
جب تک ہے تصّرف میں فضا اُس کے بدن کی
ہم کیوں یہ کہیں تختِ سلیماں نہیں دیکھا
دیوار کے کانوں سے ڈرا لگتا ہے شاید
ماجدؔ کو کئی دن سے غزل خواں نہیں دیکھا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑