تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

لایا

رُخ بہ رُخ نیّتیں بھی لکھا کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
عرش پر بیٹھ کر نہ دیکھا کر
رُخ بہ رُخ نیّتیں بھی لکھا کر
بعد میں چاہے پھول بن کے کھلے
آگ پر لیٹ اور تڑپا کر
انت تیرانہیں ہے حشر سے کم
آدمی ہے تو یہ بھی سوچا کر
تو ہے عاصی جنم سے پہلے کا
روزوئی سا خود کو دھونکا کر
لے تو بس ہوش ہی کے ناخن لے
خوش قیاسی پہ ہی نہ جایا کر
پیڑ سے یا تو ٹُوٹنے ہی نہ پا
ٹہنیوں میں نہ پھرسے اٹکا کر
بحر کو چھو کے ہی نہ فاتح بن
ہاں تہوں تک بھی اِس کی اُتراکر
یاد کر کر کے کرب ہائے جاں
ذائقہ مت دہن کا پھیکا کر
جی نہ خوش فہمیوں کی جنّت میں
آنکھ دوزخ سے بھی ملایا کر
دیکھ اوروں کے ہی تماشے دیکھ
ایسا کرنے کو گھر نہ پھونکا کر
جسم اپنا ہی دھوپ سے نہ بچا
اپنے ہمسائے کو بھی پوچھا کر
ہاتھ آئے اگر شکار کوئی
ہاں بس اپنی ہی پیٹ پوجا کر
کرکے اعلان، حق بیانی کا
جھوٹ کم کم زباں پہ لایا کر
اے نمازی ثواب یہ بھی کما
حد سے کم گاہکوں کو لُوٹا کر
حج کی فرصت ملے تو جا کے وہاں
جیسا جائے نہ ویسا لَوٹا کر
جاں سے، دل سے عزیز روزہ دار!
روزہ داری کا حق نبھایا کر
مایہ اندوزیاں عزیز نہ رکھ
پل بھی کچھ زندگی کے سینتا کر
اے خنک طبع رات کی رانی
دن کی حدّت میں بھی تو مہکا کر
بند بوتل نشے کی وہ لڑکی
من کی خلوت میں جا کے کھولا کر
سارے ہتھیار اپنے تیز نہ رکھ
سادہ چشمی سے بھی تو دیکھا کر
جھونک مت حاویوں میں تُو اِن کو
بیٹیاں دیکھ کر بیاہا کر
وسعتِ لطف سا ہے وہ انگناں
اُس سے بیلوں کی طرح لپٹا کر
کون منہ میں ترے نوالے دے
خود مسائل سے اپنے نمٹا کر
اُس کی لپٹوں کو اوڑھ لے تن پر
وہ کہ خوشبو ہے اُس کو پہنا کر
ہم کہاں تجھ پہ بوجھ بننے لگے
دِل نہ اے شخص!اپنا چھوٹا کر
کر سکے تو نوالے اپنے کاٹ
میہماں کو نہ گھر سے چلتا کر
اُس کو تن پر کِھلا گُلاب سمجھ
منہ نہ روہانسا بنایا کر
دوسروں کا کیا نہ تُو گِنوا
تُونے خود کیا کیا وہ سمجھا کر
ہاں نہ ہر کِذب گو کی ہاں میں ملا
تُو ہے برحق تو خوب بولا کر
چاہے تیرے ضمیر ہی میں وہ ہو
گانٹھ ماجد ہر ایک کھولا کر
ماجد صدیقی

ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
بن کے ابرِ رواں کا سایا وُہ
ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ
اُڑنے والا ہوا پہ خُوشبو سا
دیکھتے ہی لگا پرایا وُہ
جبر میں، لطف میں، تغافل میں
کیا ادا ہے نہ جس میں بھایا وُہ
جیسے پانی میں رنگ گھُل جائے
میرے خوابوں میں یُوں سمایا وُہ
مَیں کہ تھا اِک شجر تمّنا کا
برگ بن بن کے مجھ پہ چھایا وُہ
تیرتا ہے نظر میں شبنم سا
صبحدم نُور میں نہایا وُہ
آزمانے ہماری جاں ماجدؔ
کرب کیا کیا نہ ساتھ لایا وُہ
ماجد صدیقی

دِل میں جو بات ہے ہونٹوں پہ بھی لایا کیجے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
حدّتِ خوں کے تقاضے نہ چھپایا کیجے
دِل میں جو بات ہے ہونٹوں پہ بھی لایا کیجے
سرد مہری سا بُرا وار نہ کیجے ہم پر
جانبِ غیر ہی یہ تِیر چلایا کیجے
یہ جنہیں مطلعِٔ انوار سمجھتے ہیں سبھی
ان لبوں سے کوئی مژدہ بھی سُنایا کیجے
حاصلِ عمر ہے یہ حرف، میانِ لب و چشم
خواہش قرب نہ باتوں میں اُڑایا کیجے
تشنگی جس سے کبھی دیدۂ باطن کی مِٹے
ایسا منظر بھی کبھی کوئی دکھایا کیجے
سامنا پھر نہ کسی لمحۂ گُستاخ سے ہو
دل میں سوئے ہوئے ارماں نہ جگایا کیجے
ہم مصوّر تجھے ٹھہرائیں کہ شاعر ماجدؔ
عکسِ جاناں ہی بہ ہر حرف نہ لایا کیجے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑