ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
کرب کوئی سوچ کر سو جایئے
اُس پہ کوئی نظم پِھر لکھ لایئے
آپ بِن چاہے جو طوطے بن گئے
اِک سبق ہی زیست بھر دُہرائیے
لا کے پنجوں میں کہاں چھوڑے گا باز
یہ رعایت ذہن میں مت لائیے
پُوری کشتی ہو شکنجے میں تو پھر
کُود کر گرداب ہی میں جایئے
پھیلئے تو مثلِ خُوشبو پھیلئے
چھایئے تو ابر بن کر چھایئے
آپ سے بہتر ہو گر نسل آپ کی
اور کسی حاصل کو مت للچایئے
تُم کہ ماجِد ابکے امریکہ میں ہو
گُن کُچھ اپنے بھی یہاں گِنوایئے
ماجد صدیقی