ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 223
ماجد کا بھی حفیظ سا جو تخلیق فن میں حصہ ہے
بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے
جانے کیوں آغاز سے ہی لگ جائے اِسے اپنوں کی نظر
ماں اور باپ کا باہم رشتہ پیار ایثار کا رشتہ ہے
جیتے جی بھی کچھ کچھ بیبیاں رکھیں اپنے تاج محل
احمدی اور من موہن کے گھر کا بھی اُدھر اک نقشہ ہے
میڈیا کی ساری بدخبری سچّی ہو یہ ناممکن
حزبِ مخالف کے کردار کا بھی کچھ اِس میں شوشہ ہے
جس کے عوض مختاروں سے پینچوں نے عیب ہیں چھُپوائے
پٹواری کے علم میں اب بھی جانے کیا کیا رقبہ ہے
پہلے بھی اپنایا کیے ہیں جو جو تخت ہِلانے کو
پاس ابھی جمہوری سرداروں کے کیا کیا نسخہ ہے
غراہٹ میں چیتوں کی جیسے ہو سامنا جنگل کا
ذہنوں ذہنوں کرب و بلا کا کچھ ایسا ہی نقشہ ہے
ماجد صدیقی