تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

فسانے

فائدہ؟ جی سے جانے کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 152
عدل نہیں ہاتھ آنے کا
فائدہ؟ جی سے جانے کا
دیکھنا تھا چندا کو بھی
مرحلہ داغ اپنانے کا
خبروں والے جان چکے
کیا کیا فن دہلانے کا
ہم تم بھی تو تھے سجناں
عنواں کبھی فسانے کا
ہاتھ آتا ہے کبھی کبھی
موسم پھول کھلانے کا
اہلِ سیاست گُر جانیں
بہلانے پُھسلانے کا
کاش کوئی سیکھا ہوتا
ماجد طَور زمانے کا
ماجد صدیقی

تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
میرے انگناں پھول کھلا دے خوشبودار، سہانے ہُو
تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو
خلقِ خدا کے حق میں میرے خواب وُہ سچّے ہو جائیں
میں جن خوابوں کے بُنتا رہتا ہوں تانے بانے ہُو
حملہ آوروں، قْزّاقوں پر، گُستاخوں، منہ زوروں پر
میں جو تیر چلاؤں کیونکر ملیں نہ اُنہیں نشانے ہُو
میں اپنی بد بختی پر کاہے کو سبب ٹھہراؤں انہیں
نام پہ اچھّوں اور سچّوں کے بنتے ہیں جو فسانے ہُو
جس بھی شخص نے اپنی ریاضت سے قد کاٹھ نکالا ہے
اُس کو بَونے زچ کردیں گے، دِل یہ بات نہ مانے ہُو
کل کچھ بچّے باہم حسرتیں بانٹ رہے تھے یہ کہہ کر
عیدکا چندا ماموں آیا۔۔۔ عیدیاں اُنہیں دلانے ہُو
ننھی چیونٹیوں جیسا عزم لیے دل میں جب نکلا تو
ماجد کو بھی ملے ہیں سخن کی شیرینی کے خزانے ہُو
ماجد صدیقی

ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
ایک وُہ شخص ہی احوال نہ جانے میرے
ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہوں نہ صبا
کون آتا ہے بھلا ناز اُٹھانے میرے
ہاں وُہی دن کہ مرے حکم میں تھا تیرا بدن
جانے کب لوٹ کے آئیں وُہ زمانے میرے
چشم و رُخسار، وہ چہرہ، وہ نظرتاب اُبھار
ہیں وُہی شوق کی تسبیح کے دانے میرے
ضرب کس ہاتھ کی جانے یہ پڑی ہے اِن پر
چُور ہیں لُطف کے سب آئنہ خانے میرے
اُس نے تو آگ دکھا کر مجھے پُوچھا بھی نہ پھر
آیا ہوتا وہ الاؤ ہی بجھانے میرے
جب سے کھویا ہے وُہ مہتاب سا پیکر ماجدؔ
سخت سُونے میں نگاہوں کے ٹھکانے میرے
ماجد صدیقی

جھونکے آگ بجھانے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
ہم پہ کرم فرمانے آئے
جھونکے آگ بجھانے آئے
ہمیں پرانا ٹھہرانے کو
کیا کیا نئے زمانے آئے
خلق، وہ کارآمد بچّہ ہے
شاہ جسے بہلانے آئے
قیس کو جو ازبر تھا،ہم بھی
درس وہی دہرانے آئے
جنہیں بھُلاتے، خود کو بھُولے
لب پہ اُنہی کے، فسانے آئے
اپنی جگہ تھے جو بھی سہانے
دن پھر وہ نہ سہانے آئے
جن کو دیکھ کے تاپ چڑھے وہ
ماجد ہمیں منانے آئے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑