تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

صحرا

پُھول کھلیں جب بھی بگھیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
رنگ گُھلیں جب بھی پُروا میں یاد بہت آتے جو جاناں
پُھول کھلیں جب بھی بگھیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
اوس پڑی جب پُھولوں پر ہو، قوس دھنک کی پیشِنظر ہو
برکھا کی نمناک ہوا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
تم کہ مہک کا اک جھونکا ہو تم کہ لپکتی موجِ صبا ہو
تنہائی جیسے صحرا میں، یاد بہت آتے ہو جاناں
کیف نیا دے جانے والے ،قرب کا لطف دلانے والے
موسم کی پرنور فضا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
ہر سو ہیں خوشبو کے ریلے ،ہیں جس میں رنگوں کے میلے
عیش مناتی اس دنیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
ماجد صدیقی

فیصلہ دیتے ہوئے عادل بھی رُسوا ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
کیا کہیں ذی مرتبت کتنے تھے اور کیا ہو گئے
فیصلہ دیتے ہوئے عادل بھی رُسوا ہو گئے
کونپلیں کیا کیا نہیں جھلسی ہیں بادِ مکر سے
گلستاں امید کے، کیا کیا نہ صحرا ہو گئے
جن دنوں کی چاہ میں بے تاب تھی خلقت بہت
شو مئی قسمت سے وہ دن اور عنقا ہو گئے
خُبث کیا کیا کھُل گیا اُن کا بھی جو تھے ذی شرف
نیّتوں کے جانے کیا کیا راز افشا ہو گئے
دم بخود ٹھہرے ہیں اُن کی پاک دامانی پہ ہم
قتل کرنے پر بھی جو ماجد مسیحا ہو گئے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑