تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

شہوار

غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
گھر گھر رسماً زر کے ہیں انبار یہاں
غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں
رکھیں گرم فقط جیبیں کارندوں کی
ٹیکس بچائیں کیا کیا ٹیکس گزار یہاں
نرخ بڑھائیں وزن کریں کم چیزوں کے
ہوتا ہے یوں دُگنا کاروبار یہاں
بندشِ آب و ضیا پر ہر سو ہنگامے
سانس تلک لینا بھی ہوا دشوار یہاں
نسل بڑھائیں پودا اک بھی لگا نہ سکیں
بس اِک حد تک ہیں سارے ہُشیار یہاں
وہ جو ملا تھا وہ تو گنوا بیٹھے ہیں ہم
اُس سا ملے اب، کب دُرّ شہوار یہاں
ماجد جو بھی کہے کچھ کہہ دے سوتے میں
تجھ سی بہم کس کو چشمِ بیدار یہاں
ماجد صدیقی

جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
قلب و نظر کو جانے کیا آزار لگا ہے
جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے
انساں بھی آواز نہ یُوں لوٹائے، جیسے
پتّھر پتّھر جنگل کا غم خوار لگا ہے
اُس کو جانے رات گئے کیا فکر لگی تھی
بستی بھر میں چور ہی اِک بیدار لگا ہے
صَرف ہوا ہے جو بھی بحقِ پست مقاماں
حرف وُہی اپنا دُرِّ شہوار لگا ہے
اِک اِک ذہن تھا ایک ہی روگ کی زد میں جیسے
شہر کا شہر ہی اِک جیسا بیمار لگا ہے
ماجدؔ شہر میں ہر سُو جیسے سب اچّھا تھا
جس کو دیکھا سرکاری اخبار لگا ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑