تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

شوشہ

بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 223
ماجد کا بھی حفیظ سا جو تخلیق فن میں حصہ ہے
بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے
جانے کیوں آغاز سے ہی لگ جائے اِسے اپنوں کی نظر
ماں اور باپ کا باہم رشتہ پیار ایثار کا رشتہ ہے
جیتے جی بھی کچھ کچھ بیبیاں رکھیں اپنے تاج محل
احمدی اور من موہن کے گھر کا بھی اُدھر اک نقشہ ہے
میڈیا کی ساری بدخبری سچّی ہو یہ ناممکن
حزبِ مخالف کے کردار کا بھی کچھ اِس میں شوشہ ہے
جس کے عوض مختاروں سے پینچوں نے عیب ہیں چھُپوائے
پٹواری کے علم میں اب بھی جانے کیا کیا رقبہ ہے
پہلے بھی اپنایا کیے ہیں جو جو تخت ہِلانے کو
پاس ابھی جمہوری سرداروں کے کیا کیا نسخہ ہے
غراہٹ میں چیتوں کی جیسے ہو سامنا جنگل کا
ذہنوں ذہنوں کرب و بلا کا کچھ ایسا ہی نقشہ ہے
ماجد صدیقی

کون سا لمحہ نجانے آخری لمحہ بنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 129
سانس ہی سینے کے اندر جانے کب دشنہ بنے
کون سا لمحہ نجانے آخری لمحہ بنے
اپنے ہاں تاریخ میں ایسا ہوا اکثر کہ جب
ظلم کے ہاتھوں سروں سے کٹ کے سر، تحفہ بنے
ہٹ کے اس سے ہو چلیں کیوں ماہیٔ بیرونِ آب
ہم کہ جس ماحول کا بچپن سے ہیں حصہ بنے
مظہرِ شوق شگفتہ شہریوں کا جانیے
جا بجا سڑکوں پہ جو خودساختہ رخنہ بنے
سخت رسوا عدل کا نعرہ وہ ہے اپنے یہاں
ہر نئے رہبر کا جو کچھ دن نیا شوشہ بنے
دوسرا غاصب جو برتے پہلے غاصب کے لیے
تخت سے نکلا وہ تختہ دار کا تختہ بنے
جو غزل بھی کہہ وہ ماجد کہہ کچھ اس انداز سے
بہر یاور دیس سے دوری کا جو تحفہ بنے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑