ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اور جنم اک لیا دوبارہ
مُکھ چندا تب جا کے نکھارا
حسرت کچھ کر نے کی نہ جائے
بِیت چلا ہے جیون سارا
بنواتے سپنوں کے گھروندے
پھانک رہے ہیں مٹّی گارا
اہلِ دُوَل کی حکمت عملی
چوبارہ۔۔۔۔اُس پر چوبارا
زور ہم پر زردار کا جیسے
بیوی پر ہے میاں کا اجارا
باغی موجۂ آب ہو جیسے
یار نے کیا قد کاٹھ اُسارا
ہم نے اُس سے معانقہ کرنے
چندا بازوؤں میں ہے اُتارا
اُس کے خیال کی ضَو کیا کہنے
بام سے جی میں اُتر آیا مہ پارا
سوچا تھا دل ہاتھ پہ رکھ لیں
سامنے اُس کے ہُوا نہ یارا
تیرا کِیا یہ کہاں بھولے گا
تو نے ہمیں دل سے ہے بِسارا
جب بھی ذرا سے ہوں ہم غافل
اپنا ضمیر بھرے ہنکارا
شوہر پر جب سَوتنیں الجھیں
دیدنی ہوتا ہے نظارا
ٹیکسی والا بھی کہتا تھا
اپنی قیادت بھی ہے کٹھارا
سونے کی چڑیا کہلایا
صدیوں پہلے دیس ہمارا
کھیل شروع ذرا ہو لے تو
از خود ہو جائے گا نِتارا
کاش اُس شوخ کی جھیل آنکھوں میں
میں اُتروں سارے کا سارا
چاند نہ تتلیاں ہوں انگناں میں
کیسے سجنوا بِن ہو گزارا
ہاں اپنا اک اک مجموعہ
’پیار جریدے، کا ہے شمارہ
بے مقصد باتیں ہم سب کی
جیسے چَرنے کو ہو چارا
پھر آمر ہے جِھینت سے جھانکے
بجنے کو ہے پھر نقّارا
آنکھ میں دیکھ نشہ اُترا ہے
جان بھی جا سجناں یہ اشارا
کھوئے ہوئے ہیں اُسی کی لَے میں
جی کا بجے جب تک اکتارا
بڑھتا قدم ہے جِیت تمہاری
عزمِ سفر ہے لیکھ تمہارا
بھنور بھنور الجھاؤ بہت ہیں
دُور لگے دریا کا کنارا
ُپُھنکا ہوائے حرص سے ہو جو
پھٹ جاتا ہے معاً وہ غبارا
وہ کہ جو جبراً مغویہ ٹھہری
سُن کچھ اُس کی بھی، اوتارا!
دل میں اُسے جب ڈھونڈنا چاہا
دُور کے گوشے سے وہ پُکارا
تُو دَھنّی کا گیت الاپ اور
میں یہ کہوں۔۔۔پُٹھوار ہے پیارا
جس نے یتیمی خود نہیں دیکھی
کب وہ یتیموں کا ہو سہارا
ماجد! تیری روش پہ کہے دل
واہ واہ! مرے جیدارا
ماجد صدیقی